السلام علیکم۔
تمام مفتیان کرام سے گذارش ہے بالخصوص مفتی محمد اِسرافیل حیدری صاحب سے گذارش ہے
“میں اور علی ایک ہی نور سے ہیں ” ، کیا یہ حدیث منگڑھت ہے ، دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔
میرا نام محمد تسلیم علی مداری پتہ بریلی کے گاؤں دولی
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
ا لجواب
سب سے پہلےحدیث کا متن و طرق ملاحظہ کریں۔
إمام ديلمي (ت 509ھ) رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب “الفردوس بمأثور الخطاب” میں اس کی روایت کی ہےخُلِقْتُ أنا وعليٌّ من نورٍ واحدٍ قبل أن يُخلَق آدمُ بألفي عامٍ
یہ حدیث اسناداً اس طرح آتی ہے جیسا کہ امام سیوطی علیہ الرحمہ نے اللآليء المصنوعة (1/327) میں نقل کیا ہے
سند حدیث “حدثنا الحسن بن علي العجلي، ثنا علي بن هاشم، عن إسماعيل بن زياد، عن أبي صالح، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله ﷺ: خُلِقْتُ أنا وعليٌّ من نورٍ واحد قبل أن يُخلق آدم بألفي عام“
اسناد پر جرح
الحسن بن علي العجلي
ان کے بارے میں امام ابن الجوزي فرماتے ہیں: يضع الدحيث (موضوعات، ۱/۳۴۹)
علامہ ذهبي فرماتے ہیں: واهٍ (ميزان الاعتدال، ۱/۴۸۸)
یعنی: سخت ضعیف، بلکہ وضاع (حدیثیں گھڑنے والا) ہے۔
. علي بن هاشم بن البريد
امام يحيى بن معين فرماتے ہیں: ليس بشيء (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ۶/۲۳۰)
امام نسائي فرماتے ہیں: ضعيف
ابن عدي فرماتے ہیں: كان يتشيع ومع ضعفه أرجو أنه لا يتعمد الكذب (الكامل ۵/۱۹۴)
یعنی: ضعیف، رافضی میلان رکھنے والا راوی ہے میں امید کرتا ہوں ان کے ضعیف ہونے کے باوجود یہ جھوٹ کا قصد نہیں کرتے ہوں گے۔
إسماعيل بن زياد (أبو زياد الكوفي)
ان کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللّٰہ الباری فرماتے ہیں: منكر الحديث (التاريخ الكبير ۱/۳۶۱)
امام ابن حبان قدس سرہٗ فرماتے ہیں: كان يروي الموضوعات عن الأثبات لا يحل كتابة حديثه إلا على جهة التعجب (المجروحين ۱/۲۱۱)
یعنی: موضوع حدیث بیان کرتا تھا، اس کی حدیث لینا حلال نہیں۔
أبو صالح (باذام أو باذان مولى أم هانئ)
ان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے ثقہ کہا ہے، مگر چونکہ اس کے اوپر والے رواۃ سخت ضعیف و متہم بالوضع ہیں، اس لیے یہ اختلاف یہاں فائدہ نہیں دیتا۔
حدیث کے متن پر حکم
امام ابن الجوزي الموضوعات (۱/۳۴۹) میں تحریر کرتے ہیں: باطل لا أصل له.
امام سيوطي اللآليء المصنوعة (۱/۳۲۷) میں تحریر کرتے ہیں: موضوع.
ملا علي قاري الأسرار المرفوعة (ص ۲۹۱) میں لکھتے ہیں: موضوع.
ألباني السلسلة الضعيفة میں لکھتے ہیں (۴۹۳۲): موضوع.
اس روایت کی سب سے معروف سند میں تین سخت مجروح راوی موجود ہیں:
الحسن بن علي العجلي → وضاع۔
علي بن هاشم → ضعیف متشیع۔
إسماعيل بن زياد → متہم بالوضع۔
اس لیے یہ روایت حدیثِ یا تو سخت ضعیف ہے یا موضوع (من گھڑت) کے درجے میں ہے جیسا کہ ائمۂ جرح نے تصریح فرمائی۔ اس کی کوئی قابلِ اعتماد سند نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ حدیث أنا وعليٌّ من نورٍ واحد کا کوئی صحیح یا حسن طریق موجود نہیں، اس کے تمام طرق کے بارے میں محدثین و اصحاب جرح و تعدیل نے سخت ضعیف ،موضوع و باطل ہونے کا قول کیا ہے۔
یہ حدیث پوری اس طرح ہے۔
خُلِقْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ مِنْ نُورٍ وَاحِدٍ
یہ روایت تاریخ دمشق ابن عساکر (ج ۴۲ / ص ۵۰ وغیرہ) میں بھی وارد ہے۔ اب ہم اس روایت کی سند کو دیکھتے ہیں جو آپ کی تصویر میں لکھی ہے اور اس کے رواة کی تخریج و جرح پیش کرتے ہیں۔سند حدیث:
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللهِ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْحَافِظِ، أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْفَارِسِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَةَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْفَرَجِ غُلاَمُ فَرَجٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: خُلِقْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ مِنْ نُورٍ وَاحِدٍ.
رواة اور ان پر جرح و تعدیل
. علي بن أبي عبد الله
یہ راوی غیر معروف ہے، کسی معتبر کتاب میں ان کا حال نہیں ملا۔ لہٰذا مجہول الحال۔
. الفضل بن محمد الحافظ
غالباً یہ الفضل بن محمد بن المسيب الجندی (المعروف بالحافظ) ہیں۔ ان کے بارے میں ائمہ نے ثقہ کہا ہے۔ (ابن حبان، الثقات ۹/۱۴۲)
. أبو نصر بن علي
تعین مشکل ہے، متعدد ابو نصر بن علی ہیں۔ لیکن یہ راوی اکثر اسانید میں مجہول ملتا ہے۔
. أبو الحسن علي بن محمد المؤدب
یہ راوی بھی مجہول ہے، کتب رجال میں ان کا ذکر نہیں۔
أبو الحسن الفارسي
یہ بھی مجہول راوی ہے.
. أحمد بن سلمة النميري
یہ راوی بھی مجہول ہے۔ معتبر کتب میں ذکر نہیں ملا۔
. أبو الفرج غلام فرج الواسطي
یہ سخت ضعیف اور متروک ہے۔ ابن عدی نے کہا: “أحاديثه غير محفوظة” (الکامل ۶/۲۳۶)
حسن بن علي بن مالك
→ یہ بھی مجہول الحال ہے۔
. أبو سلمة (بن عبد الرحمن؟)
→ اگر یہ ابو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف ہیں تو وہ ثقہ فقیہ تابعی ہیں۔
. أبو سعيد الخدري رضي الله عنه
→ جلیل القدر صحابی ہیں، ان پر کوئی کلام نہیں.
حکم سند:
اس سند میں کئی مجہول رواة (علی بن أبي عبد الله، أبو الحسن المؤدب، أبو الحسن الفارسي، أحمد بن سلمة النميري، حسن بن علي بن مالك)
اور ایک متروک راوی (أبو الفرج غلام فرج الواسطي) موجود ہے۔
لہذا یہ سند ضعیف جدّاً / موضوع کے قریب ہے۔
محدثین کرام کے فیصلے:
حافظ ابن الجوزی نے الموضوعات( ۱/۳۹۷) میں اس روایت کو موضوع کہا ہے۔
علامہ ابن عراق الکنانی نے تنزیه الشريعة( ۱/۴۰۰) میں بھی اس کو باطل کہا۔
امام سیوطی نے اللآلئ المصنوعة (۱/۳۲۷) میں ذکر کر کے کہا کہ “فيه وضّاعون”۔
ابن حجر ہیتمی نے کہا: “ليس له أصل صحيح”.
یہ روایت “خُلِقْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ مِنْ نُورٍ وَاحِدٍ" سنداً سخت ضعیف بلکہ قریب بہ موضوع ہے۔
فقط أبو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری






