میری تقدیر معراج پانے لگی جب سے مجھ کو مدینہ نگر مل گیا
در بدر اب بھٹکنے سے کیا فائدہ مجھ کو سرکار کا سنگ در مل گیا
ہجر طیبہ میں روتا رہا رات بھر اشک بہتے تھے پھٹتا تھا میرا جگر
صبح باد صبا لائی پیغام یہ تجھ کو طیبہ کا اذن سفر مل گیا
چھینے قدرت نے فطروس کے جب ہیں پر دیکھو شبیر کے بال و پر کا اثر
اپنے بازو کو جھولے میں مس جو کیا دیکھو فطروس کو اس کا پر مل گیا
اللہ اللہ عطائے شہ جز و کل بھیک دینے کا انداز ختم رسل
بھر گئیں میری نسلوں کی بھی جھولیاں بن کہے ہی مجھے اس قدر مل گیا
کربلا میں خدا کو وہ عابد ملا سر ہے سجدے میں بہچھار تیروں کی ہے
جو تلاوت کرے چڑھ کے نیزے پہ خود بندگی کو اب ایسا بھی سر مل گیا ہے
یہ قرآں میں فرمان رب مجیب وہ نبی مومنوں کی ہے جان سے قریب
آنکھیں جب بند کیں ان کے عاشق نے تب آمنہ کا وہ نور نظر مل گیا
کاش چلتا رہے نعت کا سلسلہ عمر بھر یوں ہی سجتی رہیں محفلیں
نعت احمد کو سننے سنانے مجھے تم ملے اور تم کو شجر مل گیا


