madaarimedia

کیا قربانی سے پہلے ناخن اور بال نہیں کاٹنے چاہییں؟

سوال: اگر قربانی میرے نام سے ہو رہی ہے تو کیا صرف مجھے قربانی سے پہلے ناخن اور بال نہیں کاٹنے چاہییں؟ یا گھر کے سب لوگوں کو نہیں کاٹنے چاہییں؟ اگر دوسرے لوگ بھی نہ کاٹیں تو کیا ان کو بھی ثواب ملے گا؟

سائل: محمد سونو شیخ، براواں، سورت گجرات

ٱلْجَوَابُ بِعَوْنِ ٱلْمَلِكِ ٱلْوَهَّابِ، ٱللَّهُمَّ هِدَايَةَ ٱلْحَقِّ وَٱلثَّوَابِ:
قربانی کے دنوں میں، یعنی ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک، جس شخص نے قربانی کا ارادہ کیا ہو، اُس کے لیے بہتر (ثواب والا) ہے کہ وہ اپنے ناخن، بال یا جسم کی کھال نہ کاٹے۔

 صحیح مسلم میں ہے:
قالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعَرِهِ وَأَظْفَارِهِ. (صحيح مسلم، حديث: 1977) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے۔

یہ حکم صرف اُسی شخص کے لیے ہے جو قربانی کر رہا ہو یا جس کی طرف سے قربانی ہو رہی ہو۔ گھر کے باقی افراد اگر قربانی نہیں کر رہے تو ان پر یہ حکم لاگو نہیں ہوتا۔ البتہ اگر وہ بھی ثواب کی نیت سے ان دنوں میں ناخن اور بال نہ کاٹیں تو یہ باعثِ ثواب ہوگا۔ واضح رہے کہ فقہائے احناف کے نزدیک اس کا حکم “مستحب” ہے، یعنی اگر کوئی شخص بال یا ناخن کاٹ لے تو گناہ نہیں، لیکن رک جانا افضل اور ثواب کا کام ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
ويُكْرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعَرِهِ وَأَظْفَارِهِ شَيْئًا إِذَا دَخَلَ عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ، إِنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ. (فتاویٰ ہندیہ، ج ٥، ص ٣٠٠)

الحاصل:
اگر گھر میں صرف آپ کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے تو ناخن اور بال نہ کاٹنے کا مستحب حکم صرف آپ کے لیے ہے، گھر کے باقی افراد اس حکم میں شامل نہیں۔ اگر وہ بھی رکیں گے تو نیتِ ثواب کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی اُمید ہے۔

 البتہ اگر کسی گھر میں ہر فرد اپنی الگ قربانی کر رہا ہو، تو ہر شخص کے لیے مستحب ہے کہ وہ بال و ناخن نہ کاٹے۔

کتبہ:
مشرف عقیل غفرلہ
قاضی و مفتی: ہاشمی دار الافتاء و القضاء موہنی شریف سیتامڑھی بہار
٢٩/ذی القعدہ ١٤٤٦ھ / مطابق ٢٨؍ مئی ٢٠٢٥ء بروز بدھ۔

Leave a Comment

Related Post

Top Categories