تکبیر بیٹھ کر سنیں یہ کھڑے ہوکر

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں تکبیر کھڑے ہو کر سننا چاہیے یا بیٹھ کر اور اگر تکبیر بیٹھ کر سن رہے ہیں تو کب کھڑا ہونا چاہیے اور اگر امام خود تکبیر کہے تو مقتدیوں کو کب کھڑا ہونا چاہیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے

المستفتی
جلیس احمد جعفری ہر وا نواب گنج بریلی
98 97 36 28 91



وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

بسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم
نَحمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیم، اَمّا بَعْد۔
الجواب، بعون الملک الوہّاب، اللّٰہمَّ ہِدایۃَ الحقِّ وَالصَّواب

علمائے کرام و مشائخِ عظام کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ نمازی اُس وقت کھڑے ہوں جب امام مسجد میں داخل ہو جائے اور اقامت کے وہ الفاظ شروع ہوں جن پر قیام مسنون ہے۔

احادیث و آثارِ صحابہ کی روشنی میں

السنن الکبریٰ للبیہقی میں حضرتِ سیّدنا عبداللّٰہ بن ابی اَوفیٰ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے

“کانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ، إِذَا قَالَ بِلَالٌ: قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ، نَہَضَ فَکَبَّرَ”
ترجمہ: جب حضرت بلال رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اقامت میں “قد قامت الصلوٰۃ” کہتے تو رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُٹھ کھڑے ہوتے، پھر اللّٰه اکبر کہتے ۔

(السنن الکبریٰ بیہقی، کتاب الصلوٰۃ، باب من زعم انہ یکبر قبل فراغ المؤذن من الاقامۃ ، حدیث 2345 ، جلد 2 ، صفحہ 304 ، دارالفکر ، بیروت)


موطّا امام محمد میں ہے

“قَالَ مُحَمَّدٌ: یَنْبَغِی لِلقَوْمِ إِذَا قَالَ المُؤَذِّنُ: حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ، أَنْ یَقُوْمُوا إِلَی الصَّلٰوۃِ فَیَصُفُّوا وَیُسَوُّوا الصُّفُوفَ”
(موطّا امام محمد ، باب تسویۃ الصف ، صفحہ 88)

ترجمہ: جب مؤذن “حَیَّ عَلَی الفَلَاح” کہے تو لوگوں کو چاہئے کہ نماز کے لیے کھڑے ہوں اور صفیں سیدھی کریں۔

 بخاری شریف کی حدیث “لا تقوموا حتی ترونی” کے تحت عمدۃ القاری میں ہے

“وَکَانَ أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُومُ إِذَا قَالَ المُؤَذِّنُ: قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ”
یعنی حضرت انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ “قد قامت الصلوٰۃ” پر کھڑے ہوتے۔

مزید اسی مقام پر ہے:

“وَفِی المُصَنَّفِ: کَرِہَ ہِشَامٌ أَنْ یَقُومَ حَتّٰی یَقُولَ المُؤَذِّنُ قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ”

یعنی ہشام بن عروہ اقامت میں “قد قامت الصلوٰۃ” سے پہلے کھڑے ہونا مکروہ سمجھتے تھے۔

(عمدۃ القاری شرح بخاری، کتاب الاذان ، باب متیٰ یقوم الناس للصلٰوۃ ، جلد 5 ، صفحہ 224 ، مطبوعہ ، دارالکتب العلمیہ بیروت)

کتاب مَا لَا بُدَّ مِنْہُ میں ارشاد ہے

“طریقِ خواندنِ نماز بر وجہِ سنت آن است کہ اذان گفتہ شود و اقامت، و نزدِ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ امام برخیزد (و مقتدیان نیز برخیزند).”
یعنی نماز ادا کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے اذان کہی جائے، پھر اقامت، اور جب مؤذن اقامت میں “حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ” تک پہنچے تو امام کھڑا ہو جائے اور مقتدی بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔
(ما لا بدّ منہ فارسی ، صفحہ 28)

پس جب اقامت شروع ہونے سے قبل مقتدی مسجد میں موجود ہوں اور امام بھی اپنے مصلّے پر یا اس کے قریب تشریف فرما ہو، اور اقامت کہنے والا شخص امام کے علاوہ کوئی دوسرا ہو، تو اس صورت میں شریعت کی رو سے تمام نمازیوں کا قیام “حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ” یا “حَیَّ عَلَی الْفَلَاح” پر ہونا مسنون و مستحب ہے۔

فقہائے احناف نے تصریح فرمائی ہے کہ ابتدائے اقامت سے کھڑے رہنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے اقامت کے آغاز پر قیام کرنا، بالخصوص جب امام ابھی کھڑا نہ ہوا ہو، خلافِ ادب ہے۔

اسی لیے ردّ المحتار میں فرمایا:

“یُکْرَہُ لَہُ الِانْتِظَارُ قَائِمًا، وَلٰکِنْ یَقْعُدُ، ثُمَّ یَقُومُ إِذَا بَلَغَ المُؤَذِّنُ: حَیَّ عَلَی الفَلَاح”
یعنی مقتدی کو چاہئے کہ نماز کا انتظار کھڑے ہو کر نہ کرے، کہ یہ مکروہ ہے؛ بلکہ بیٹھا رہے، پھر جب مؤذن “حَیَّ عَلَی الفَلَاح” پر پہنچے تو کھڑا ہو جائے۔
(رد المحتار، جلد 2، صفحہ 88)


اگر امام خود اقامت کہے (اہم مسئلہ)

جب امام خود اقامت کہہ رہا ہو تو حکم مختلف ہے۔
اس صورت میں مقتدی اقامت مکمل ہونے تک نہیں کھڑے ہوں گے۔

در المختار میں ہے:

“إِذَا أَقَامَ الإِمَامُ بِنَفْسِہٖ فِی المَسْجِدِ فَلَا یَقُومُوا حَتّٰی یُتِمَّ إِقَامَتَہٗ”
(الدر المختار مع رد المحتار ، جلد 2 ، صفحہ 216 ، مطبوعہ ، کوئٹہ)
ترجمہ: جب امام خود اقامت کہے تو مقتدی اقامت مکمل ہونے تک نہ کھڑے ہوں۔

اس کی علت المحیط البرہانی میں یوں بیان کی

“لِأَنَّہُمْ لَوْ قَامُوا، قَامُوا لِأَجْلِ الصَّلٰوۃِ، وَلَا وَجْہَ إِلَیْہِ، لِأَنَّہُمْ تَابِعُونَ لِإِمَامِہِمْ، وَقِیَامُ الإِمَامِ فِی ہٰذِہِ الحَالَۃِ لِلإِقَامَۃِ لَا لِلصَّلٰوۃِ”
(المحیط البرھانی ، جلد 1، صفحہ 354 ، مطبوعہ ، بیروت)

یعنی مقتدی اگر کھڑے ہوں گے تو گویا نماز کے لیے کھڑے ہوں گے، حالانکہ اس وقت نماز کا وقت نہیں، کیونکہ وہ اپنے امام کے تابع ہیں، اور امام کا کھڑا ہونا نماز کے لیے نہیں بلکہ اقامت کے لیے ہے۔

 

الحاصل

موذن اقامت کہے تو
امام و مقتدی “حَیَّ عَلَی الفَلَاح” پر کھڑے ہوں ۔
اس سے پہلے کھڑا ہونا مکروہ ہے ۔

اگر امام خود اقامت کہے
مقتدی اقامت مکمل ہونے تک بیٹھے رہیں ۔
اقامت مکمل ہونے کے بعد کھڑے ہوں ۔

واللّٰہ تعالیٰ اَعلمُ بالصَّواب

 

حررہ العبد العاصی

محمد عمران کاظم مصباحی المداری مرادآبادی

خادم :- دار الافتاء الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند
تاریخ 04 / جمادی الثانی 1447 ھجری , بروز بدھ ، مطابق 26 / نومبر 2025 عیسوی ۔


الجواب صحیح والمجیب نجیح

افقہ الفقہاء فاتحِ نیپال حضرت علامہ مولانا مفتی سید نثار حسین جعفری المداری نادر مصباحی مکن پور شریف کان پور نگر یو پی الہند
مفتی دار الافتاء آستانۂ عالیہ مداریہ دار النور مکن پور شریف ۔


Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *