madaarimedia

مقصد جز و کل مرضئ کبریا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا

 مقصد جز و کل مرضئ کبریا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا

ختم جس پر نبوت کا ہے سلسلہ آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


موم جس نے کیا سختی و سنگ کو دور جس نے کیا کفر کے زنگ کو

جس نے آئینۂ دل پہ کی ہے جلا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


امن عالم کا ہیں آپ ہی تو سبب آپ نے کی ہے تکمیل منشائے رب

کہہ اٹھا خود خدا جس پہ صل علیٰ آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


وہ ضعیفہ جو دیتی تھی کانٹے بچھا آپ اس کی عیادت کریں مرحبا

جس نے کی حسن اخلاق کی انتہا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


یاد ہے ارض طائف کا وہ واقعہ پتھروں سے تھے زخمی ہوئے دست و پا

نکلی ایسے میں جس کے لبوں سے دعا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


کہکے دونوں کو باہم لباس وفا دیکے انسان کو حکم مہر و عطا

جس نے عورت کو جینے کا حق دے دیا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


بھینی بھینی محبت کی خوشبو لئے ہم غریبوں کی آنکھوں میں آنسو لئے

چومتی ہے قدم جس کے باد صبا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


جس سے علم علی او ں اور حیائے غنی عظمت عدل جس سے عمر کو ملی

جس پہ قربان صدیق سا با وفا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


کیوں نہ صدقے ادیب ” اس پہ ہوں جان و تن خود سیئے ہاتھ سے جو پھٹا پیرہن

تا جدار عرب مالک دوسرا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا

 _______________


فخر نوح و فخر آدم سرور کونین ہیں

 فخر نوح و فخر آدم سرور کونین ہیں

وجہ تخلیق دو عالم سرور کونین ہیں


حضرت آدم سے عیسیٰ تک جو آئے انبیاء

سب مؤخر ہیں مقدم سرور کونین ہیں


خشت عصیاں پر جو بر سے بن کے رحمت کی گھٹا

وہ ترے گیسوئے برہم سرور کونین ہیں


پوچھئے تو یہ بتائیں گے جناب جبرئیل

دونوں عالم میں معظم سرور کونین ہیں


آسمانوں کے فرشتے ہوں کہ ہوں جن و بشر

سب کے سردر پہ ترے خم سرور کونین ہیں


گنبد خضری پہ اشکوں کے گہر قرباں کریں

چاہتے یہ دیدۂ نم سرور کونین ہیں


جسم کا سایہ نہ ہونے سے یہ ثابت ہو گیا

پیکر نورِ مجسم سرور کونین ہیں


کیوں نہ ہوں حاصل ہمیں دونوں جہاں کی نعمتیں

جب غلاموں میں ترے ہم سرور کونین ہیں


آپ جو چاہیں تو مل جائے ہر اک دکھ سے نجات

ایک دل اور سیکڑوں غم سرور کونین ہیں


پائے گا آرام طیبہ کی فضاؤں میں ادیب”

اس کے زخم دل کا مرہم سرور کونین ہیں

 _______________


ہے سجائی گی بزم عالم آگئے تاجدار دو عالم

 ہے سجائی گی بزم عالم آگئے تاجدار دو عالم

پیکر نور خلق مجسم آگئے تاجدار دو عالم


دست قدرت کی تخلیق اول آئی دنیا میں ہو کر مشّکل

ہم موخر کہیں یا مقدم آگئے تاجدارِ دو عالم


ہے جبینِ ستم پر پسینہ اور شیاطیں کا ہے چاک سینہ

آرہی ہے یہ آواز پیہم آگئے تاجدار دو عالم


اٹھ نہ پائیگا اب جہل کا سر زندہ درگور ہوگی نہ دختر

اب نہ ترسے گی پھولوں کو شبنم آگئے تاجدار دو عالم


ارض مکہ ہے جنت بداماں گرم وادی بنی شب نمستاں

ہو گئی سرد نار جہنم آ گئے تاجدار دو عالم


بڑھ گئی فقر وفاقے کی عزت جاگ اٹھی غریبوں کی قسمت

صبح عشرت بنی ہر شب غم آگئے تاجدار دو عالم


اے ادیب اپنی نذر عقیدت لے کے جانا ہے پیش رسالت

غنچہ نعت کرلے منظم آگئے تاجدار دو عالم

 _______________


اپنا تو آسرا فقط روز حساب ایک ہے

 اپنا تو آسرا فقط روز حساب ایک ہے

کوئی سوال کیجئے سب کا جواب ایک ہے


والشمس والضحی وہی معنی ھل اتی وہی

کس نے کہا حضور کا میرے خطاب ایک ہے


کون ہے ایسا جو نہیں عشق رسول میں مگن

سیر ہے بزم میکدہ جام شراب ایک ہے


ان پہ درود اور سلام بھیجتے رہئے صبح و شام

منزل کا ئنات میں راہ ثواب ایک ہے


اپنا سا ان کو مان کے حکم سے ان کے انحراف

منکر عظمت نبی وجہ عتاب ایک ہے


وحدت ذات كبر یا ذکر جمال مصطفیٰ

باب کتاب ہیں بہت اصل کتاب ایک ہے


جن کو بنا کے انبیاء بھیجا خدا نے اے ادیب”

سب ہی ہیں محترم مگر عالی جناب ایک ہے

 _______________


اپنا وہ اعجاز مجھ کو بھی دکھا دو مصطفیٰ

 اپنا وہ اعجاز مجھ کو بھی دکھا دو مصطفیٰ

میں بھی پتھر ہوں مجھے کلمہ پڑھا دو مصطفیٰ


یہ تو میں کہتا نہیں تم مجھ کو کیا دو مصطفیٰ

ہاں مگر اتنا مجھے اپنا بتا دو مصطفیٰ


مردہ دل لوگوں کو جس نے بخش دی تازہ حیات

وہ حدیث زندگی کیا ہے سنادو مصطفیٰ


ہیں تمہارے ہاتھ میں سارے خزانے غیب کے

تم جو چاہو فیض کے دریا بہا دو مصطفیٰ


ہر طرف شور تلاطم ہر طرف موج بلا

میری کشتی کو کنارے پر لگا دو مصطفیٰ


ہو نہ جاؤں زندگانی کی کشاکش کا شکار

نا امیدی میں گھرا ہوں حوصلہ دو مصطفیٰ


اس پہ بھی ہو جائے شاید رحمت حق کا نزول

کنج دل کو وسعت غار حرا دومصطفی


سر بلندی ملتی ہے پتھر شکم پر باندھ کر

شان سے غربت میں جینے کی ادا دو مصطفیٰ


نور خضرا کی طرف ہے تک رہا کب سے ادیب”

شمع الفت اس کے سینے میں جگادو مصطفیٰ

 _______________


نہیں ہے یوں تو کسی کا جواب ناممکن

 نہیں ہے یوں تو کسی کا جواب ناممکن

مگر جواب رسالت مآب نا ممکن


اٹھائیں آپ جو انگشت پاک سوئے فلک

دو نیم ہونا دل ماہتاب ناممکن


حضور ہی تھے جو یہ منزلیں گزار گئے

وہ ذکر و فکر وہ عہد شباب ناممکن


یہ جان کر کہ رضائے نبی ہے مرضئ حق

نہ ابھرے ڈوبا ہوا آفتاب نا ممکن


کوئی بھی سرور عالم کا چاہنے والا

پھرے جہاں میں بحالِ خراب ناممکن


بہ یک نگاہ جو لائے تھے سرور عالم

اب آئے ایسا کوئی انقلاب نا ممکن


لئے ہے گوشۂ دامان مصطفیٰ سر پر”

ادیب اور غم روز حساب ناممکن

 _______________


ہے اگر تو میری فغان شب تو نہ بیٹھ پردۂ راز میں

 ہے اگر تو میری فغان شب تو نہ بیٹھ پردۂ راز میں

کبھی آ دیار حجاز میں کبھی جا دیار حجاز میں


ہے ہر ایک سمت سکوت شب ہے زباں پہ حمد و ثنائے رب

ذرا دیکھئے تو یہ کون ہے جو کھڑا ہوا ہے نماز میں


یہی ایک خوف سدا رہا جو میں آہ لب پہ نہ لا سکا

کہ نہ دیکھ لے کوئی جھانک کے تجھے میرے دل کے گداز میں


ہے گواہ عرصۂ لامکاں ہمیں بھولے شافع عاصیاں

نہ تو آکے خلوت ناز سے نہ تو جا کے خلوت ناز میں


ہوا دور دل سے ہر ایک غم جو بکھر گئی ہے بصد کرم

تو سمٹ کے آگئے دو جہاں اسی ایک زلف دراز میں


کبھی ضرب عشق اگر پڑی تو بشکل صورتِ اذاں اٹھی

یہ صدائے سوز بلال ہے جو نہاں ہے پردۂ ساز میں


نہ ہو کیوں مدینۂ مصطفیٰ مرے جذب شوق کی انتہا

کہ وہی حقیقت اصل ہے جو ہے اس جہانِ حجاز میں


نہیں کم ہے یہ بھی مجھے صلہ جو در رسول سے ہے ملا

کہ مری غلامی کی ہر ادا ہے نگاہ بندہ نواز میں


ہے ادیب ” قسمت نارسا مگر اے درشہ انبیاء

تو نہ جانے کب سے بسا ہوا ہے مری جبینِ نیاز میں

 _______________


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن بار جن سے آس ہے مجھے

 آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن بار جن سے آس ہے مجھے

چاند ستارے کرتے نچھاور ہیں موتی کی لڑیاں

رہ رہ کے آکاش سے چھوٹیں نورانی پھلجھڑیاں

دور ہوئے ساری دنیا سے ظلمت کے آثار


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن بار جن سے آس ہے مجھے


دکھ ساگر کی برہم موجیں جب آنکھیں دکھلائیں

آ آ کے طیبہ سے ہوائیں کانوں میں کہہ جائی

ڈوبنے والوں مت گھبراؤ ہو گا بیڑا پار


آئے وہ میرے سر کار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


شرم سے سرمایہ داری کا سر نہیں اٹھ پائیگا

پیٹ پہ پتھر باندھ کے جینا عزت بن جائیگا

فخر کریں غربت کے مارے ناز کریں نادار


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


ہر آنگن میں گونج اٹھے گی خوشیوں کی شہنائی

سارے انساں بن کے رہیں گے اک دن بھائی بھائی

گر کے رہے گی بھید بھاؤ کی یہ اونچی دیوار


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


جن سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے انسانوں کا محسن

جن کی ضرب الا اللہ سے گونج اٹھیں گے اک دن

مکے کے کوچے ہوں یا ہو طائف کا بازار


آئے وہ میرے سر کار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


جو اپنی میٹھی بولی سے کانوں میں رس گھولیں

وہ جن کے لیہائے مبارک راز کے دفتر کھولیں

ہاتھ کا تکیہ خاک کا بستر عالم کے سردار


آئے وہ میرے سر کار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


جن کی گود سے شیر خدا نے شانِ شجاعت پائی

جن سے عدل عمر نے اور عثماں نے سخاوت پائی

حضرت صدیق اکبر تھے جن کے یار غار


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے

 _______________


اسی امید میں اپنی بسر اب زندگی ہوگی

 اسی امید میں اپنی بسر اب زندگی ہوگی

کبھی تو وہ بلائیں گے کبھی تو حاضری ہوگی


مری آہیں صبا لیکر مدینے جب گئی ہوگی

تو شانِ رحمۃ للعالمینی جھوم اٹھی ہوگی


رخ و الشمس کی توصیف پوچھو خالق کل سے

کہوں گا میں تو توہین جمال یوسفی ہوگی


یقیں کب تھا یہ باطل کو اندھیرے مٹ ہی جائیں گے

عیاں فاران کی چوٹی سے ایسی روشنی ہوگی


انہیں آخر میں یوں بھیجا کہ تھا علم مشیت میں

یہ دنیا ایک دن محروم امن و آشتی ہوگی


سدا وحشت رہے پابند صحرا کیا ضروری ہے

جنوں اب ہو گا میرا اور مدینے کی گلی ہوگی


کھلیں گے عاصیوں پر بھی دریچے باغ رضواں کے

مشیت ناز بردار رسول ہاشمی ہوگی


جلو میں کاروانِ اہلِ الفت لیکے آئیں گے

قیامت میں عجب شانِ علامانِ نبی ہوگی


یہ کہکر نکلی قید جسم سے روح ادیب ” آخر

فضائے ارض طیبہ میرا رستہ دیکھتی ہوگی

 _______________


کاش ہستی کا وہی آخری لمحہ ہوتا

 کاش ہستی کا وہی آخری لمحہ ہوتا

سامنے آنکھوں کے جب گنبد خضری ہوتا


لوٹتی گردش ایام جو پیچھے کی طرف

کیا تعجب ہے کہ نظارۂ آقا ہوتا


دانت بے دیکھے اویس قرنی نے توڑے

جانے کیا ہوتا اگر آنکھوں سے دیکھا ہوتا


نور کے ساتھ کثافت کا تصور ہی غلط

نور آقا نہ اگر ہوتے تو سایہ ہوتا


آپ کا حکم اگر ہوتا تو کنکریاں کیا

لب انگشتِ ابو جہل پہ کلمہ ہوتا


میرے آقا نے تری بات بنادی ورنہ

آج دنیا ترا بگڑا ہوا نقشہ ہوتا


ہم اگر مانتے آقا کے اصولِ زرّیں

اپنی تاریخ کا ہر باب سنہرا ہوتا


اب مسیحائی کو آتی نہیں طیبہ سے نسیم

اس سے اچھا تھا کہ بیمار نہ اچھا ہوتا


ان کا مداح جلے نار جہنم میں ادیب

کیسے یہ شافع محشر کو گوارا ہوتا

 _______________


Top Categories