مقصد جز و کل مرضئ کبریا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا
ختم جس پر نبوت کا ہے سلسلہ آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا
موم جس نے کیا سختی و سنگ کو دور جس نے کیا کفر کے زنگ کو
جس نے آئینۂ دل پہ کی ہے جلا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا
امن عالم کا ہیں آپ ہی تو سبب آپ نے کی ہے تکمیل منشائے رب
کہہ اٹھا خود خدا جس پہ صل علیٰ آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا
وہ ضعیفہ جو دیتی تھی کانٹے بچھا آپ اس کی عیادت کریں مرحبا
جس نے کی حسن اخلاق کی انتہا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا
یاد ہے ارض طائف کا وہ واقعہ پتھروں سے تھے زخمی ہوئے دست و پا
نکلی ایسے میں جس کے لبوں سے دعا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا
کہکے دونوں کو باہم لباس وفا دیکے انسان کو حکم مہر و عطا
جس نے عورت کو جینے کا حق دے دیا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا
بھینی بھینی محبت کی خوشبو لئے ہم غریبوں کی آنکھوں میں آنسو لئے
چومتی ہے قدم جس کے باد صبا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا
جس سے علم علی او ں اور حیائے غنی عظمت عدل جس سے عمر کو ملی
جس پہ قربان صدیق سا با وفا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا
کیوں نہ صدقے ادیب ” اس پہ ہوں جان و تن خود سیئے ہاتھ سے جو پھٹا پیرہن
تا جدار عرب مالک دوسرا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا