madaarimedia

عظمت گنبد خضری ہے کہ اللہ اللہ

 عظمت گنبد خضری ہے کہ اللہ اللہ

عرش بھی جھک کے یہ کہتا ہے کہ اللہ اللہ


دیکھ کے اس رخ والشمس پہ زلف والیل

بس یہی منھ سے نکلتا ہے کہ اللہ اللہ


انبیاء اور رسل جس کے براتی ہونگے

حشر کے روز کا دولہا ہے کہ اللہ اللہ


چاند تاروں کی جبیں جس نے منور کردی

آپ کا نقش کف پا ہے کہ اللہ اللہ


ترا مولی بھی ہوا تیری رضا کا طالب

تو بھی کس شان کا بندہ ہے کہ اللہ اللہ


تشنہ لب دیکھ کے امت کو ترا ابر کرم

اس طرح ٹوٹ کے برسا ہے کہ اللہ اللہ


غار کی رات ہے زانو پہ سرختم رسل

آج صدیق کا رتبہ ہے کہ اللہ اللہ


ساریہ کو جو ہلاکت سے بچا سکتا ہے

ابن خطاب کا خطبہ ہے کہ اللہ اللہ


تیرے اشعار میں ہے نسبت حسان ادیب”

شعر گوئی کا سلیقہ ہے کہ اللہ اللہ

 _______________


کوئی راہی جو مدینے کی طرف جاتا ہے

 کوئی راہی جو مدینے کی طرف جاتا ہے

ہوک سی اٹھتی ہے اور دل مرا بھر آتا ہے


ہجر طیبہ میں گزر جاتی ہیں یوں بھی راتیں

دل کو سمجھاتا ہوں میں دل مجھے سمجھاتا ہے


حشر میں سب کی نگاہیں ہیں نکو کاروں پر

دیکھئے کون بروں کو یہاں اپناتا ہے


اب تو آجا ئیے آقا کہ چراغ ہستی

نا امیدی کی ہواؤں سے بجھا جاتا ہے


دیکھئے آقا یہ جاتا ہے جو سوئے دوزخ

ہے گنہگار مگر آپ کا کہلاتا ہے


ناز کر اپنے مقدر پہ زمین طیبہ

تیرے ہر ذرے سے خورشید بھی شرماتا ہے


جانے کس منزل الفت میں ہے دل میرا ادیب”

نام لیتا ہوں نبی کا تو سکوں پاتا ہے

 _______________


راز دار حریم خدا آپ ہیں

 راز دار حریم خدا آپ ہیں

فہم و ادراک سے ماوریٰ آپ ہیں


آرزو التجاء مدعا آپ ہیں

میرے سب کچھ حبیب خدا آپ ہیں


ہر نبی اپنی امت کا سردار ہے

اور سردار کل انبیاء آپ ہیں


بحر ہستی میں کیا موج و طوفاں کا ڈر

میری کشتی کے جب ناخدا آپ ہیں


مشکلیں زندگی میں بہت ہیں مگر

دل قوی ہے کہ مشکل کشا آپ ہیں


مختصر ہے مرا قصۂ زندگی

ابتدا آپ ہیں انتہا آپ ہیں


زاہدوں کو ہیں اعمال کے آسرے

اور میرا فقط آسرا آپ ہیں


ڈوبتے کی نگاہوں سے دیکھے کوئی

نا خدا با خدا جانے کیا آپ ہیں


بیم محشر ہو کیوں آپ کو اے ادیب”

جب کہ مداح خیر الوریٰ آپ ہیں

 _______________


آئی یاد مدینہ آئی

 آئی یاد مدینہ آئی

لائی پیام راحت لائی


بستی ہے جس میں یاد محمد

اس دل پر قربان خدائی


منزل طیب مد نظر ہے

وحشت دل اب راه پہ آئی


رسوا ہوا ہوں عشق نبی میں

مجھ کو مبارک یہ رسوائی


جرم نبی ہے پھر سے غریبی

فاخر غربت تیری دہائی


گنبد خضری بس نہیں ورنہ

کس کو گوارا تیری جدائی


یوں ہی کئے جا ذکر محمد

سانس کا کیا ہے آئی نہ آئی


ساتھ ادیب ” ہے یاد محمد

مجھ کو نہیں خوف تنہائی

 _______________


آنکھوں سے مری آنسو طیبہ میں جدا ہو نگے

 آنکھوں سے مری آنسو طیبہ میں جدا ہو نگے

مہرومہ وانجم سے تابش میں سوا ہو نگے


جوش آئے گا رحمت کو در خلد کے واہونگے

سجدے میں محمد جب مصروف دعا ہو نگے


جب ادنی غلام ان کے کونین کے مالک ہیں

سرکار مدینہ خود کیا جانیے کیا ہونگے


ٹوٹے ہوئے دل والے محبوب محمد ہیں

محبوب محمد ہی مقبول خدا ہو نگے


آئے گا جوانی پر یہ شوق جبیں سائی

سجدے در احمد پر جب جا کے ادا ہو نگے


اللہ مری حالت سرکار سے کہہ دینا

احسان ترے مجھ پر اے باد صبا ہو نگے


اچھی نہیں اتنی بھی آزادہ روی تیری

اے جرات رندانہ سر کار خفا ہو نگے


مانگیں گے ادیب ” اس دن خود ان سے انھیں کو ہم

سرکار مدینہ جب مائل بہ عطا ہو نگے

 _______________


مقصد فطرت نور مجسم آئے جہاں میں سرور عالم

 مقصد فطرت نور مجسم آئے جہاں میں سرور عالم

بن کے حریم قدس کا محرم آئے جہاں میں سرور عالم


دور ہوا باطل کا اندھیرا پھیلا وہ پھیلا حق کا اجالا

چم کا وہ چمکا نیر اعظم آئے جہاں میں سرور عالم


چل چل کے مخمور ہوائیں ہنس ہنس کے مسرور فضائیں

دیتی ہیں آواز یہ پیہم آئے جہاں میں سرور عالم


جہل کے تن میں روح جو پھڑ کی بغض و حسد کی چھاتی دھڑکی

جور و جفا کا گھٹنے لگا دم آئے جہاں میں سرور عالم


اٹّھے رخ عرفان سے پردے رقص میں آئے دین کے جلوے

کفر کی محفل ہو گئی برہم آئے جہاں میں سرور عالم


ناچو خوشی میں اٹھ کے غریبو! گاؤ ہنسو اللہ کے پیارو

کرتے ہو کیوں تقدیر کا ماتم آئے جہاں میں سرور عالم


رحمت حق کے پیکر خاتم لائے ہیں تسکین کا مرہم

درد کے مارو! اب نہ کرو غم آئے جہاں میں سرور عالم


جب ہوئی دنیا جہل کی خوگر جب ہوئے گم اخلاق کے جوہر

جب ہوئی نبض ہستی مدھم آئے جہاں میں سرور عالم


آج کے دن یہ رونا کیسا اشکوں سے منھ دھونا کیسا

ہوش میں آ اے دیدۂ پر غم آئے جہاں میں سرورِ عالم


جاگی ادیب ” انسان کی قسمت خلق مجسم پیکر رحمت

بن کے وقار حضرت آدم آئے جہاں میں سرور عالم

 _______________


ہم ہجر کی کالی راتوں میں اکثر یہی سوچا کرتے ہیں

 ہم ہجر کی کالی راتوں میں اکثر یہی سوچا کرتے ہیں

کچھ ایسے بھی ہیں جو شام و سحر نظارۂ طیبہ کرتے ہیں


معلوم نہیں کن ذروں کو قدموں سے نواز ا ہو تم نے

ہم اس لئے خاک طیبہ کے ہر ذرے پہ سجدہ کرتے ہیں


دیوانۂ عشق ختم رسل شاید یہ تجھے معلوم نہیں

اس طرح تڑپنے سے تیرے سر کار بھی تڑپا کرتے ہیں


کیا جانے حیات دو روزہ پھر اتنی بھی مہلت دے کہ نہ دے

ہم آج یہیں سے تجھ کو سلام اے گنبد خضری کرتے ہیں


جب گنبد خضریٰ دیکھا تھا کیوں مر نہ گئے کیوں مٹ نہ گئے

ہم لوٹ کے آنے والوں سے آقا یہی پوچھا کرتے ہیں


دیوانو! اٹھو کچھ عرض کر کرو یہ وقت نہیں چپ رہنے کا

سنتے ہیں کہ اپنی محفل میں سرکار خود آیا کرتے ہیں


وہ بزم جمی اور وہ آئی آواز “ادیب ” خستہ کی

عشاق نبی جس کی نعتیں سنتے ہیں تو رویا کرتے ہیں

 _______________


بروز حشر جب دیں گے حساب اول سے آخر تک

 بروز حشر جب دیں گے حساب اول سے آخر تک

غلام ان کے رہیں گے کامیاب اول سے آخر تک


یہ سمجھے جب پڑھا ہر ایک باب اول سے آخر تک

ہے مدح مصطفی ام الکتاب اول سے آخر تک


پئے انسانیت معیارِ کردار و عمل ٹھہرا

رسول اللہ کا عہد شباب اول سے آخر تک


کسی شعبے کو دیکھو کار گاہ زندگانی میں

حیات مصطفیٰ ہے لا جواب اول سے آخر تک


نگاہ عارفاں خیرہ ہے اب تک کیا قیامت ہو

جو ذات مصطفیٰ الٹے نقاب اول سے آخر تک


خدارا اک نظر پھیلا ہوا ہے میری دنیا میں

اندھیرا اے حرا کے آفتاب اول سے آخر تک


مہد سے تالحد ان کی غلامی مانگ لی میں نے

ہے یکتا میر احسن انتخاب اول سے آخر تک


نگاه سرور کونین کا مرہون منت ہے

یہ دنیائے عمل کا انقلاب اول سے آخر تک


حضور آئے تو ذوق جلوہ جا گا لیکے انگڑائی

تجلی تھی حجاب اندر حجاب اول سے آخر تک


نہیں تحریر اس میں نام احمد کے سوا کچھ بھی

ہے سادہ میری ہستی کی کتاب اول سے آخر تک


سرِ بالیں تھے حضرت اور تڑپ کر جان دی میں نے

حقیقت کاش بن جائے یہ خواب اول سے آخر تک


اجازت ہو تو اے سرکار حاضر ہو کے خدمت میں

سنائیں اپنا ہم حال خراب اول سے آخر تک


بجز مدح نبی جتنے عمل تھے رائیگاں نکلے

“ادیب” اپنا کیا جب احتساب اول سے آخر تک

 _______________


وہ حامی ہے جو سید مکی مدنی ہے

وہ حامی ہے جو سید مکی مدنی ہے

نازاں ہیں گنہگار کہ اب بات بنی ہے


کونین پہ انوار کی سایہ فگنی ہے

وہ آتا ہے جس کے لئے دنیا یہ سجی ہے


غلطاں صدف نور مین در عدلی ہے

دندان مبارک ہیں کہ ہیرے کی کنی ہے


سرکار جو گزریں تو مہک جائیں وہ گلیاں

کیا گلبدنی گلدنی گلدنی ہے


نادم رخ زیبا سے جمالِ گل رنگیں

شرمنده قد پاک سے سرو چمنی ہے


آقا کے پینے سے معطر ہوئیں نسلیں

تاثیر کہاں تجھ میں یہ مشک ختنی ہے


ٹوٹی سی چٹائی پہ ہیں قونین کے مالک

اور دوش مبارک پر روائے یمنی ہے


رس گھول دیا تلخئ حالات میں جس نے

اعجاز رسالت ہے کہ شیریں سخنی ہے


جبریل بھی ہیں غاشیہ برداری پہ نازاں

کیا رتبۂ عالی ترا اللہ غنی ہے


بے اصل نظر آتی ہے سورج کی تمازت

اے گنبد خضریٰ تری وہ چھاؤں گھنی ہے


آغوشِ رسالت میں جگہ پائی ہے جس نے

یہ سوچئے وہ کتنا مقدر کا دھنی ہے


ہے دیدۂ و نادیدہ سبھی ان کے فدائی

رومی حبشی فارسی کوئی یمنی ہے


آئے جو ترس ساقی مری تشنہ لبی پر

وہ دیدے جو سرکار کی جالی سے چھنی ہے


پایا ہے ادیب ” آقا سے مدحت کا یہ انعام

سر پر مرے اک چادر رحمت سی تنی ہے

 _______________


سرگوشیاں ہیں باہم محراب میں منبر میں

 سرگوشیاں ہیں باہم محراب میں منبر میں

سرکار مدینہ ہیں صدیق کے پیکر میں


شهکار رسالت ہے ایثار کا وہ پیکر

اللہ نبی کو بس چھوڑ آیا ہو جو گھر میں


نا فہم نہ سمجھیں گے ہٹ دھرم نہ مانیں گے

کیا منصب فاروقی ہے چشم پیمبر میں


انوار کی دنیا میں وہ کیسا غنی ہوگا

لکھے ہوئے ہوں جس کے دونور مقدر میں


اعجاز دکھاتے ہیں جب ختم رسل اپنا

زور اسد اللہی آجاتا ہے حیدر میں


بچھڑے ہوئے مدت کے صدیق و عمر دونوں

آسودہ نظر آئے آغوش پیمبر میں


آقا کی غلامی کا انعام کوئی دیکھے

کونین کی نعمت ہے دامان ابوذر میں


سلمان و بلال آقا سرشار ہوئے جس سے

اک بوند اسی مئے کی دیدیجیے ساغر میں


یہ کس نے دہائی دی ساقئ مدینہ کی

اٹھی ہے سرِ محشر اک موج سی کوثر میں


مایوس ادیب ” اتنا ہونا ہے ترا بے جا

اصحاب نبی ہو نگے حامی ترے محشر میں

 _______________


Top Categories