madaarimedia

زمانے سے اندھیرے کو مٹادو یا بدیع الدیں

 زمانے سے اندھیرے کو مٹادو یا بدیع الدیں

نقاب روئے انور اب اٹھا دو یا بدیع الدیں


یہ کہتے قادری چشتی ، نظامی ، سہروردی ہیں

ہماری قسمتوں کو جگمگا دو یا بدیع الدیں


تمہیں ہو آل پیغمبر تمہیں ہو وارث کوثر

ہیں تشنہ لب ہمیں آب بقا دو یا بدیع الدیں


ہے طوفان بلا پھر سرکشی کرنے پہ آماد

مری کشتی کنارے سے لگا دو یا بدیع الدیں


بنام سنیت جو اولیاء اللہ کے دشمن ہیں

مثال سوختہ ان کو سزا دو یا بدیع الدیں


تمہیں ہو باب شہر علم کے نور نظر مولی

دل محضر بھی قرآں سے سجادو یا بدیع الدیں
  ——

ولیوں کی ہے زبان پہ مدحت مدار کی

 ولیوں کی ہے زبان پہ مدحت مدار کی

دیکھے تو کوئی شان ولایت مدار کی


اس دن سمجھ میں آئے گی عظمت مدار کی

محشر میں جب پڑے گی ضرورت مدار کی


دوزخ کا خوف ہوگا نہ احساس تشنگی

جب دیکھ لیں گے حشر میں صورت مدار کی


اہل ستم کی گرم نگاہی کا خوف کیا

ہم پر رہی جو چشم عنایت مدار کی


اس کو حضورئی در خیر الوری ملی

جس کو نصیب ہو گئی قربت مدار کی


تم بے بصر ہو منکرو کیا جان پاؤ گے

اہل نگاہ کرتے ہیں عظمت مدار کی


کوثر کے جام شربت دیدار مصطفیٰ

سب کو نصیب ہوگا بدولت مدار کی


جلتا رہا ہے جلتا رہے گا وہ تا ابد

پنہا ہے جس کے دل میں عداوت مدار کی


خالی ہیں یوں تو توشئہ عقبی سے ہم مگر

لے کر چلے ہیں دل میں محبت مدار کی


شکر خدا ہیں جن کے طلب گار اولیاء

محضر کو ہے نصیب وہ نسبت مدار کی
  ——

آپ کا جو غلام ہو جائے

 آپ کا جو غلام ہو جائے

واجب الاحترام ہوجائے


آپ کے آستاں سے دور کہیں

زندگی کی نہ شام ہو جائے


ہو جو کوئی فنائے عشق مدار

اس کو حاصل دوام ہو جائے


نام میں تیرے وہ اثر ہے جسے

سن کے دشمن بھی رام ہو جائے


کیوں نہ قوموں کی جھولیاں بھر جائیں

فیض جب ان کا عام ہو جائے


زمرۂ خاص میں غلاموں کے

کاش اپنا بھی نام ہو جائے


تیری مدحت کرے جو قطب جہاں

وہ بھی عالی مقام ہو جائے


وہ سہارا نہ دیں تو دنیا میں

اپنا جينا حرام ہو جائے


اس جہاں پہ جو ہوں نہ قطب مدار

سارا برہم نظام ہے ہو جائے


یہ تمنا ہے قسمت محضر

ان کی الفت کا جام ہو جائے
  ——

ذہن ہے محو جستجوئے مدار

 ذہن ہے محو جستجوئے مدار

دل کو ہے صرف آرزوئے مدار


کوئی محروم فیض ره نہ سکا

ہر چمن میں بسی ہے بوئے مدار


ہر طرف ہے تجلیوں کا ظہور

نور کا اک جہاں ہے کوئے مدار


روک پائی نہ گردش ایام

جب قدم بڑھ گئے ہیں سوئے مدار


یہی میری خلد نظاره

حشر میں سامنے ہے روئے مدار
  ——

رنگ پھولوں میں بھرے ابر بہاراں چھا گیا

 رنگ پھولوں میں بھرے ابر بہاراں چھا گیا

موسم عرس مدار ہردو عالم آگیا


ذکر قطب دو جہاں ہے مٹ گئی تیرہ شبی

بزم میں چاروں طرف نور ولایت چھا گیا


لے گئے تشریف جس خطہ میں قطب دو جہاں

پرچم نور رسالت اس جگہ لہرا گیا


ہو گیا پھر اس کا دل فکر جہاں سے بے نیاز

بے کس و مجبور دامن آپ کا جب پا گیا


جگمگا اٹھا زمانے میں جو وہ مہر حلب

منہ ستاروں نے چھپایا چاند بھی شرما گیا


قہر برسایا خدا نے اس پہ مثل سوختہ

جب غلاموں سے ترے منکر کوئی ٹکرا گیا


پایا محضر نے در قطب دوعالم سے سکوں

زندگی کی کشمکش سے جب بھی دل گھبرا گیا
  ——

مرکوز ترے روضۂ عالی پہ نظر ہے

 مرکوز ترے روضۂ عالی پہ نظر ہے

دنیا کا مجھے ہوش نہ عقبی کی خبر ہے


کس طرح پھوٹیں مری پیشانی سے کرنیں

اک مہر جہاں تاب کی دہلیز پر سر ہے


اے کاش ٹھہر جائے یہیں گردش ہستی

اب مری جمال رخ آقا پہ نظر ہے


انوار خراماں کی طرح پھرتے ہیں ابدال

کیا جانئے یہ کس کی گلی کس کا نگر ہے


سورج کی طرف اٹھ نہیں سکتی ہیں نگاہیں

دیکھے رخ روشن ترا یہ کس کا جگر ہے


طوف در سر کار سے مٹ جاتی ہے گردش

کیسے نہ کہیں ہم یہ مرادوں کی سحر ہے


لے سر پہ ادب سے مرے سرکار کی چادر

منکر جو ترے دل میں قیامت کا خطر ہے


آزاد جو ہر فکر سے ہر غم سے ہے محضر

یہ نسبت سرکار کا بھر پور اثر ہے
  ——

دربار مصطفی میں سدا بار یاب ہے

 دربار مصطفی میں سدا بار یاب ہے

قطب المدار آپ ہی اپنا جواب ہے


تو فاطمہ کی جان دل بوتراب ہے

سرکار کائنات کی تعبیر خواب ہے


تجھ سے کھلا صدائے ولایت کا باب ہے

تو مطلع حلب کا نیا آفتاب ہے


تاروں میں چاند پھولوں میں جیسے گلاب ہے

یوں اولیا میں قطب جہاں لا جواب ہے


اہل نظر سے کہہ دو لحاظ ادب رہے

اس دم جمال قطب جہاں بے نقاب ہے


اس کے ورق ورق پہ ہے تحریر دم مار

پڑھ لیجئے کھلی مرے دل کی کتاب ہے


کہتی ہیں قطب غوری کی زندہ کرامتیں

بے شک غلام زندہ ولی کامیاب ہے


ہر سلسلہ نے آپ سے پائی ہیں نسبتیں

قطب جہاں سے سارا جہاں فیضیاب ہے


حاصل ہے اس کو پشت پناہی مدار کی

محضر کو اب نہیں غم روز حساب ہے
  ——

اسے بھی حقارت سے مٹی نہ کہیے وہ خاک شفا جو یہاں اڑ رہی ہے

 اسے بھی حقارت سے مٹی نہ کہیے وہ خاک شفا جو یہاں اڑ رہی ہے

یہ اس سرز میں کی ہیں پر نور گلیاں جہاں روضۂ پاک زندہ دلی ہے


مکنپور اک سمت اک سمت طیبہ میں ہوں درمیاں اب مجھے کیا کمی ہے

مرے اک طرف ہے کرم کا سمند ر مرے اک طرف فیض کی اک ندی ہے


جو انوار غوث الوری بن کے چکا وہ بی بی نصیبہ کی آنکھوں کا تارہ

نہ کیوں زندگی پاتا آقا نے اس سے کہا تھا کہ تو جان من بنتی ہے


ٹھہر جا زمانے کی گردش ٹھہر جا ابھی اور بھی دیکھنے دے یہ روضہ

نہیں مطمئن میری ذوق نظر ہے نگاہوں میں ہاتی ابھی تشنگی ہے


ہر اک دل میں ہے حاضری کی تمنا اسے ہر کوئی چومنا چاہتا ہے

حسیں کس قدر ہے تیرا آستانہ تری جالیوں میں عجب دلکشی ہے


جو آئے یہاں ہو تو اے آنے والو محبت کے سانچے میں دل اپنا ڈھالو

یہاں آئینہ اپنے دل کو بنا لو مدار جہاں کی نظر دیکھتی ہے


ترے نام کی سب ہی جیتے ہیں مالا نہ جانے بھرے آج کس کا پیالا

جو دولہا کو بھا جائے دلہن وہی ہے پیا جس کو چاہے سہاگن وہی ہے


جو الفاظ دل سے نکلتے ہیں محضر مچلتے لبوں پہ ہیں وہ درد بن کر
مناقب کہوں مجھ کو توفیق دیجے مرے آقا میری تمنا یہی ہے
  ——

جو کوئی غوث تو کوئی مدار ہوتے ہیں

 جو کوئی غوث تو کوئی مدار ہوتے ہیں

غلام سرور دیں باوقار ہوتے ہیں


یہ کہکشاں یہ فلک اور یہ مہر و ماه نجوم

ہزار جان سے تم پر نثار ہوتے ہیں


بغیر اذن لگاتے نہیں ہیں منہ سے شراب

تمہارے مست بڑے ہوشیار ہوتے ہیں


یقین رکھتے ہیں جو ان کی نا خدائی پر

وه لوگ بحر مصیبت سے پار ہوتے ہیں


ہے ان کی آنکھوں کا ہر قطرہ گوہر نایاب

فراق طیبہ میں جو اشک بار ہوتے ہیں


جو ظلم ڈھاتی کسی امتی پہ ہے دنیا

مرے حضور بہت بے قرار ہوتے ہیں


جو سر پہ رکھتے ہیں نعلین مصطفیٰ محضر

قسم خدا کی وہی تاجدار ہوتے ہیں
 ——

مدار سے بیر قہر خالق اگر نہیں ہے تو اور کیا ہے

منقبت مدار العالمین کلام حسان الہندعلامہ معزز حسین ادیب مکنپوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ  مدار سے بیر قہر خالق اگر نہیں ہے تو اور کیا ہےکہ سوظن ان سے رکھنے والا سراج کی طرح سوختہ ہےسب ایک منزل کے ہیں مسافر جدا جدا سب کا راستہ ہےمگر یہ دیکھو کہ مصطفے سے قریب ترکس کا … Read more

Top Categories