madaarimedia

نبی کے دلارے مدار دو عالم

نبی کے دلارے مدار دو عالم
ہیں زہرہ کے پیارے مدار دو عالم

کسی کا کوئی ہے کسی کا کوئی ہے

ہمارے ہمارے مدار دو عالم


غریب و تو نگر تمہارے ہی در پر

ہیں دامن پسارے مدار دو عالم


رہیں گے وہی سرخرو دو جہاں میں

ہیں جو بھی تمہارے مدار دو عالم


تمہارے کرم سے ضیاء بار ہم ہیں

یہ چاند اور تارے مدار دو عالم


ہماری نظر میں وہ جنت ہے محضر

جہاں ہیں ہمارے مدار دو عالم
  ——

بحر غم ہو چلا بے کراں

 بحر غم ہو چلا بے کراں

المدد اے مدار جہاں


حال دل اپنا کرنے بیاں

در پہ آیا ہے اک بے زباں


ہے سپرد آپکے آشیاں

لاکھ چمکا کریں بجلیاں


آپ کا کوئی ثانی کہاں

آپ تو ہیں مدار جہاں


مل گیا حاصل جستجو

سامنے ہے ترا آستاں


کیا کریں گے مرا حادثے

آپ جب مجھ پہ ہیں مہرباں


پھیلی ایمان کی روشنی

ہند میں آئے قطب جہاں


ہم ہیں آقا غلام آپ کے

جائیں در چھوڑ کر پھر کہاں


شمع دل کے نگہباں ہو تم

لاکھ اٹھتی رہیں آندھیاں


سمت محضر بھی چشم کرم

اے انیس دل ناتواں
  ——

جس کا ہر سمت اجالا ہے مدار عالم

 جس کا ہر سمت اجالا ہے مدار عالم

وہ فقط آپ کا جلوہ ہے مدار عالم


مرتبے میں وہ زمیں خلد سے بھی بہتر ہے

جس جگہ آپ کا روضہ ہے مدار عالم


آپ فرمائیں نہ کیسے انا شمس الافلاک

آپ کی شان ہی اعلیٰ ہے مدار عالم


عرض غم آپ سمجھتے ہیں یہ ہے اور ہی بات

ہم کو کیا اتنا سلیقہ ہے مدار عالم


تاج پہنا کے ولایت کا رسول کل نے

ہند میں آپ کو بھیجا ہے مدار عالم


مل گیا میرے سفینے کو کنارا محضر

جب زباں پہ میری آیا ہے مدار عالم
  ——

وہ جس نے روئے مدار جہاں کو دیکھ لیا

 وہ جس نے روئے مدار جہاں کو دیکھ لیا

جمال سرورکون ومکاں کو دیکھ لیا


نہ کوئی متقی پایا حضور کے جیسا

زمیں کو دیکھ لیا آسمان کو دیکھ لیا


میں مطمئن ہوں فقط آپ کی نوازش پر

ہے بجلیوں نے مرے آشیاں کو دیکھ لیا


ترے جوار کے ہر ذرۂ درخشاں پر

نثار ہوتے مہ و کہکشاں کو دیکھ لیا


وہیں پہ سجدے کئے ہیں جُنوں کے ماروں نے

جہاں تمہارے قدم کے نشاں کو دیکھ لیا


علاوہ آپ کے سرکار ہم غریبوں کا

نہیں ہے کوئی بھی سارے جہاں کو دیکھ لیا


تڑپ اٹھی جو نظر روضۂ نبی کے لئے

تو میں نے روضۂ قطب جہاں کو دیکھ لیا


پکارا دل نے مدار جہاں کو اے محضر

جو طیبہ جاتے کسی کارواں کو دیکھ لیا
  ——

جھکتی یہاں پہ ہر نگہ ہوشیار ہے

 جھکتی یہاں پہ ہر نگہ ہوشیار ہے

اے دل یہ آستانۂ قطب المدار ہے


یہ جان کر کہ آپ ہیں سنتے غریب کی

میرے لبوں پہ آگئی دل کی پکار ہے


آقا کی بارگاہ میں دیوانے آئے ہیں

کوئی گریباں چاک کوئی دل فگار ہے


در سے نہ خالی لوٹ کے جائے گا یہ غلام

آقا ترے کرم پہ اسے اعتبار ہے


کب دیکھئے اٹھاتے ہیں قطب جہاں نقاب

میری نگاہ شوق کو یہ انتظار ہے


روضہ کی سمت نظریں اٹھاؤ تو زائرو

دیکھو برستی رحمت پروردگار ہے


ہم کو ستا نہ پائیں گے دنیا کے حادثات

سر پر ہمارے دامن قطب المدار ہے


اس کی طرف بھی نظر عنایت اٹھے حضور

محضر بھی اک نظر کے لئے بے قرار ہے
  ——

یہ وصف میرے لئے کب کسی دیار میں ہے

 یہ وصف میرے لئے کب کسی دیار میں ہے

سکوں جو دل کو میسر ترے جوار میں ہے


جسے بھی چاہیں ولایت سے مالہ مال کریں

یہ بات قطب دو عالم کے اختیار میں ہے


لبوں پہ آتے ہی ہوتی ہیں مشکلیں آساں

نہ جانے کتنا اثر لفظ دم مدار میں ہے


ہم اپنے تاب تصور پہ ناز کرتے ہیں

کہیں بھی ہم ہیں مگر دل کوئے مدار میں ہے


جگر کے زخموں پہ مرہم کا کام کرتا ہے

اثر وہ ارضِ مکنپور کے غبار میں ہے


بسی ہے روضۂ اقدس میں نکہت طیبہ

نہاں نبی کی امانت اسی مزار میں ہے


شرف زمانے میں پایا ہے ان کی نسبت سے

نہیں تو ہستئی محضر بھی کس شمار میں ہے
  ——

ہے ہماری زندگی ذکر مدار العالمیں

 ہے ہماری زندگی ذکر مدار العالمیں

ہم نہ چھوڑیں گے کبھی ذکر مدار العالمیں


اپنے قلب مضطرب کو مل گیا صبر و قرار

آیا جو لب پر کبھی ذکر مدار العالمیں


اس گھڑی گوش سماعت کو ادب سکھلائیے

کر رہا ہو جب کوئی ذکر مدار العالمیں


تذرکرہ غیروں کا وجہ سورش و ہنگامہ ہے

روح امن و آشتی ذکر مدار العالمیں


کیوں حراساں ہو رہا ہے ظلمتوں سے میرے دل

تجھ کو دے گا روشنی ذکر مدار العالمیں


روکنا جو چاہتے ہیں وہ مخالف دیکھ لیں

ہو رہا ہے اور بھی ذکر مدار العالمیں


کاش ہو محضر یہی بس زندگی کا مشغلہ

ذکر حق ذکر نبی ذکر مدار العالمیں
  ——

جلوہ فگن جو دیکھا جمال نبی یہاں

 جلوہ فگن جو دیکھا جمال نبی یہاں

شب بھر طواف کرتی رہی چاندنی یہاں


جائے غلام ان کا کسی آستاں پہ کیوں

نعمات معرفت کی بھلا کیا کمی یہاں


ہر اک مرے کو مار کے زندہ مدار نے

دی ہے کرم سے اپنے نئی زندگی یہاں


شاہان باوقار ہوں یا کوئی خاکسار

ہیں دامن طلب لئے آئے سبھی یہاں


زندہ ولی ہیں وارث میخانہ رسول

آؤ بجھائی جاتی ہے تشنہ لبی یہاں


ہر سمت نور بار ہیں جلوے حیات کے

زندہ نبی وہاں ہیں تو زندہ ولی یہاں


جس کو کہیں سکون کی نعمت نہیں ملی

محضر اسے غموں سے اماں مل گئی یہاں
  ——

ہے طلب جن کو ترے در کی طرف آئیں گے

 ہے طلب جن کو ترے در کی طرف آئیں گے

ہیں جو پیاسے وہ سمندر کی طرف آئیں گے


قطب واغواث بھی تحصیل سعادت کے لئے

آج اس روضہ انور کی طرف آئیں گے


جالیوں کی تو کشش اپنی جگہ پر یوں بھی

ہم تو دیوانے ہیں پتھر کی طرف آئیں گے


ان کے پیارو سے عداوت ہے تو روز محشر

لوگ کس منہ سے پیمبر کی طرف آئیں گے


میں دہائی تری دے دوں گا مدار عالم

حادثہ اب جو مرے گھر کی طرف آئیں گے


نام لے گا ترا محشر میں بھی انشاء اللہ

جب فرشتے ترے محضر کی طرف آئیں گے
  ——

کعبہ نظر آتا ہے طیبہ نظر آتا ہے

 کعبہ نظر آتا ہے طیبہ نظر آتا ہے

سر کار کی جالی سے کیا کیا نظر آتا ہے


نسبت اسے حاصل ہے کوثر کی روانی سے

اے زائرو جو تم کو دریا نظر آتا ہے


ہر اہل بصیرت کو سرکار کی صورت میں

اللہ کی قدرت کا جلوہ نظر آتا ہے


دیکھے تو کوئی عالم رتبے کی بلندی کا

بندہ بھی یہاں آکر آقا نظر آتا ہے


وہ روضہ اقدس ہے جس ارضِ مقدس پر

ہم کو وہ مدینے کا ٹکڑا نظر آتا ہے


انوار سیادت بھی تجھ کو نہ نظر آئے

منکر تیری آنکھوں پر پردہ نظر آتا ہے


ہے قطب دو عالم کی نسبت کا اثر محضر

جو تیرے مناقب کا چرچہ نظر آتا ہے
  ——

Top Categories