madaarimedia

رخ روشن جمال مصطفیٰ کا آئینہ کہیے

 رخ روشن جمال مصطفیٰ کا آئینہ کہیے

مدار دو جہاں کو مظہر خیر الوریٰ کہیے


فنا کر دیتی ہے امراض جسمانی و روحانی

در قطب جہاں کی خاک کو خاک شفا کہیے


وہ جس کی ناخدائی حاصل ارماں کی ضامن ہے

مدار دو جہاں کو آپ ایسا ناخدا کہیے


وہی آئے ہیں فیضان رسالت کے امیں بن کر

انہیں کی ذات کو دار و مدار اولیاء کہیے


عقیدت شرط ہے ہر آرزوئے دل بر آئے گی

در قطب جہاں پہ اپنے دل کا مدعا کہیے


مدار العالمین کی جلوہ پاشی عام ہے لیکن

بصارت رکھ کے بھی جو بے بصر ہو ان کو کیا کہیے


مدار العالمیں کی عظمتوں کا جو بھی منکر ہے

وہی ہے رہزن ایماں نہ اس کو رہنما کہیے
  ——

وسیلے سے مدار دوجہاں کے جو دعا ہوگی

 وسیلے سے مدار دوجہاں کے جو دعا ہوگی

مرا ایمان ہے بے شک وہ مقبول خدا ہوگی


جو محبوب خدا کے لاڈلے کے زیر پا ہوگی

ذرا یہ سوچئے وہ خاک کتنی بے بہا ہوگی


مداریت کے درجے کی وہاں سے ابتدا ہوگی

ولایت کے مراتب کی جہاں پر انتہا ہوگی


اسی دربار میں آلودگئی ذہن دھلتی ہے

اسی دربار سے عرفان حق کی ابتدا ہوگی


نظر روضہ پہ رکھو زائرو ہے پھوٹنے والیں

وہ کرنیں جن سے ہر آئینہ دل پر جلا ہوگی


نماز عشق پڑھنے کے لئے آئے ہیں دیوانے

قضا جو عمر بھر کی ہے ترے در پر ادا ہوگی


مجال سرکشی کس کو غلام قطب عالم سے

مخالف ہم سے محضر گردش ایام کیا ہوگی
  ——

ہر زباں پر یہی تذکرہ ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے

 ہر زباں پر یہی تذکرہ ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے

موسم عرب قطب الوریٰ ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے


ہیں وہی رحم فرمانے والے ہر تمنا کو بر لانے والے

اپنا پاتا اگر مدعا ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے


کوئی روکا کرے لاکھ رستہ رک نہ پائے گا دیوانہ ان کا

کوئی چپ کے سے یہ کہہ گیا ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے


ہے قوی اپنی کرنی جو نسبت چومئے در بحسن عقیدت

یہ تو اک سنت اولیاء ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے


دید کا ہو اگر کچھ قرینہ ہند میں بھی تو ہے اک مدینہ

دیکھنا جو در مصطفیٰ ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے


پھوٹتی کرنیں ہیں آستاں سے ہے وہیں کی یہ دھرتی جہاں سے

چاند تاروں نے پائی ضیاء ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے


دیکھ کر در پہ خیرات بٹتے دونوں عالم کی نعمات بٹتے

دل منافق کا بھی کہہ رہا ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے


عرس سرکار قطب جہاں کا جس جگہ بھی نظر چاند آیا

دل یہ محضر کا کہنے لگا ہے چلئے چلئے مکن پور چلئے
  ——

زمانے سے اندھیرے کو مٹادو یا بدیع الدیں

 زمانے سے اندھیرے کو مٹادو یا بدیع الدیں

نقاب روئے انور اب اٹھا دو یا بدیع الدیں


یہ کہتے قادری چشتی ، نظامی ، سہروردی ہیں

ہماری قسمتوں کو جگمگا دو یا بدیع الدیں


تمہیں ہو آل پیغمبر تمہیں ہو وارث کوثر

ہیں تشنہ لب ہمیں آب بقا دو یا بدیع الدیں


ہے طوفان بلا پھر سرکشی کرنے پہ آماد

مری کشتی کنارے سے لگا دو یا بدیع الدیں


بنام سنیت جو اولیاء اللہ کے دشمن ہیں

مثال سوختہ ان کو سزا دو یا بدیع الدیں


تمہیں ہو باب شہر علم کے نور نظر مولی

دل محضر بھی قرآں سے سجادو یا بدیع الدیں
  ——

ولیوں کی ہے زبان پہ مدحت مدار کی

 ولیوں کی ہے زبان پہ مدحت مدار کی

دیکھے تو کوئی شان ولایت مدار کی


اس دن سمجھ میں آئے گی عظمت مدار کی

محشر میں جب پڑے گی ضرورت مدار کی


دوزخ کا خوف ہوگا نہ احساس تشنگی

جب دیکھ لیں گے حشر میں صورت مدار کی


اہل ستم کی گرم نگاہی کا خوف کیا

ہم پر رہی جو چشم عنایت مدار کی


اس کو حضورئی در خیر الوری ملی

جس کو نصیب ہو گئی قربت مدار کی


تم بے بصر ہو منکرو کیا جان پاؤ گے

اہل نگاہ کرتے ہیں عظمت مدار کی


کوثر کے جام شربت دیدار مصطفیٰ

سب کو نصیب ہوگا بدولت مدار کی


جلتا رہا ہے جلتا رہے گا وہ تا ابد

پنہا ہے جس کے دل میں عداوت مدار کی


خالی ہیں یوں تو توشئہ عقبی سے ہم مگر

لے کر چلے ہیں دل میں محبت مدار کی


شکر خدا ہیں جن کے طلب گار اولیاء

محضر کو ہے نصیب وہ نسبت مدار کی
  ——

آپ کا جو غلام ہو جائے

 آپ کا جو غلام ہو جائے

واجب الاحترام ہوجائے


آپ کے آستاں سے دور کہیں

زندگی کی نہ شام ہو جائے


ہو جو کوئی فنائے عشق مدار

اس کو حاصل دوام ہو جائے


نام میں تیرے وہ اثر ہے جسے

سن کے دشمن بھی رام ہو جائے


کیوں نہ قوموں کی جھولیاں بھر جائیں

فیض جب ان کا عام ہو جائے


زمرۂ خاص میں غلاموں کے

کاش اپنا بھی نام ہو جائے


تیری مدحت کرے جو قطب جہاں

وہ بھی عالی مقام ہو جائے


وہ سہارا نہ دیں تو دنیا میں

اپنا جينا حرام ہو جائے


اس جہاں پہ جو ہوں نہ قطب مدار

سارا برہم نظام ہے ہو جائے


یہ تمنا ہے قسمت محضر

ان کی الفت کا جام ہو جائے
  ——

ذہن ہے محو جستجوئے مدار

 ذہن ہے محو جستجوئے مدار

دل کو ہے صرف آرزوئے مدار


کوئی محروم فیض ره نہ سکا

ہر چمن میں بسی ہے بوئے مدار


ہر طرف ہے تجلیوں کا ظہور

نور کا اک جہاں ہے کوئے مدار


روک پائی نہ گردش ایام

جب قدم بڑھ گئے ہیں سوئے مدار


یہی میری خلد نظاره

حشر میں سامنے ہے روئے مدار
  ——

رنگ پھولوں میں بھرے ابر بہاراں چھا گیا

 رنگ پھولوں میں بھرے ابر بہاراں چھا گیا

موسم عرس مدار ہردو عالم آگیا


ذکر قطب دو جہاں ہے مٹ گئی تیرہ شبی

بزم میں چاروں طرف نور ولایت چھا گیا


لے گئے تشریف جس خطہ میں قطب دو جہاں

پرچم نور رسالت اس جگہ لہرا گیا


ہو گیا پھر اس کا دل فکر جہاں سے بے نیاز

بے کس و مجبور دامن آپ کا جب پا گیا


جگمگا اٹھا زمانے میں جو وہ مہر حلب

منہ ستاروں نے چھپایا چاند بھی شرما گیا


قہر برسایا خدا نے اس پہ مثل سوختہ

جب غلاموں سے ترے منکر کوئی ٹکرا گیا


پایا محضر نے در قطب دوعالم سے سکوں

زندگی کی کشمکش سے جب بھی دل گھبرا گیا
  ——

مرکوز ترے روضۂ عالی پہ نظر ہے

 مرکوز ترے روضۂ عالی پہ نظر ہے

دنیا کا مجھے ہوش نہ عقبی کی خبر ہے


کس طرح پھوٹیں مری پیشانی سے کرنیں

اک مہر جہاں تاب کی دہلیز پر سر ہے


اے کاش ٹھہر جائے یہیں گردش ہستی

اب مری جمال رخ آقا پہ نظر ہے


انوار خراماں کی طرح پھرتے ہیں ابدال

کیا جانئے یہ کس کی گلی کس کا نگر ہے


سورج کی طرف اٹھ نہیں سکتی ہیں نگاہیں

دیکھے رخ روشن ترا یہ کس کا جگر ہے


طوف در سر کار سے مٹ جاتی ہے گردش

کیسے نہ کہیں ہم یہ مرادوں کی سحر ہے


لے سر پہ ادب سے مرے سرکار کی چادر

منکر جو ترے دل میں قیامت کا خطر ہے


آزاد جو ہر فکر سے ہر غم سے ہے محضر

یہ نسبت سرکار کا بھر پور اثر ہے
  ——

دربار مصطفی میں سدا بار یاب ہے

 دربار مصطفی میں سدا بار یاب ہے

قطب المدار آپ ہی اپنا جواب ہے


تو فاطمہ کی جان دل بوتراب ہے

سرکار کائنات کی تعبیر خواب ہے


تجھ سے کھلا صدائے ولایت کا باب ہے

تو مطلع حلب کا نیا آفتاب ہے


تاروں میں چاند پھولوں میں جیسے گلاب ہے

یوں اولیا میں قطب جہاں لا جواب ہے


اہل نظر سے کہہ دو لحاظ ادب رہے

اس دم جمال قطب جہاں بے نقاب ہے


اس کے ورق ورق پہ ہے تحریر دم مار

پڑھ لیجئے کھلی مرے دل کی کتاب ہے


کہتی ہیں قطب غوری کی زندہ کرامتیں

بے شک غلام زندہ ولی کامیاب ہے


ہر سلسلہ نے آپ سے پائی ہیں نسبتیں

قطب جہاں سے سارا جہاں فیضیاب ہے


حاصل ہے اس کو پشت پناہی مدار کی

محضر کو اب نہیں غم روز حساب ہے
  ——

Top Categories