madaarimedia

اے مرے دل یہ بتا حال ترا کیا ہوگا

 اے مرے دل یہ بتا حال ترا کیا ہوگا

سامنے آنکھوں کے جب گنبد خضری ہوگا


وہ جہاں نور شب و روز برستا ہوگا

ہاں وہی جنت دل گنبد خضری ہوگا


خواب میں جس نے بھی سرکار کو دیکھا ہوگا

خواب جھوٹا نہیں ہو سکتا وہ سچا ہوگا


جس نے آقا کے پیسنے کو لگایا ہوگا

نسل کا اس کی ہر اک فرد مہکتا ہوگا


رب نے تخلیق کئے جس کے لئے دونوں جہاں

سوچئے کیا کوئی اس کے لئے پردہ ہوگا


بر میں راج اندھیروں کا تو ہوگا لیکن

ان کے آنے سے اجالا ہی اجالا ہوگا


سچ بتا کیسے تھے آقا مرے بدر کامل

تونے تو سرور کونین کو دیکھا ہوگا


غم اسے اپنی یتیمی کا نہ ہوگا محضر

جس کے سر پر مرے سرکار کا سایہ ہوگا
 ——

تجس میکدے کا ہے تمنا ہے نہ پینے کی

 تجس میکدے کا ہے تمنا ہے نہ پینے کی

مرے ہمدم کئے جا مجھ سے بس باتیں مدینے کی


بچھونا ہے چٹائی کا شکم پر ہیں بندھے پتھر

غریبوں کو ادا سکھلا گئے سرکار جینے کی


ترے چہرے کی تابانی سے مہر و ماہ روشن ہیں

دو عالم کو معطر ہے کئے خوشبو پسینے کی


مشام جان و دل اپنے معطر کرتے رہتے ہیں

گلابوں میں بھی ہے خوشبو محمدؐ کے پسینے کی


بلائے موج غم نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے

خدا را آبرو رکھ لیجئے میرے سفینے کی


نبی سے پایا ہے سینہ بسینہ جو بزرگوں نے

ہمارے سینے میں بھی آرزو ہے اس دینے کی


ہے اس میں سرور عالم کی الفت کی مہک محضر

کوئی قیمت لگائے اب مرے دل کے نگینے کی
 ——

دونوں عالم میں جو کام آئے کچھ ایسا لکھیں

دونوں عالم میں جو کام آئے کچھ ایسا لکھیں

آئیے احمد مرسل کا قصیدہ لکھیں


اب کے سوچا ہے کوئی خط جو مدینہ لکھیں

حال دل لکھیں حضوری کی تمنا لکھیں


جس کو اللہ نے محبوب لکھا ہے اپنا

کچھ سمجھ میں نہیں آتا اسے ہم کیا لکھیں


غرق کردے اسے طوفان یہ ممکن ہی نہیں

جس سفینے پہ بھی ہم نام نبی کا لکھیں


آگئے رحمت کل اہل قلم سے کہدو

جسے لکھتے تھے وہ بطحہ اسے طیبہ لکھیں


تاب پرواز تخیل نہ قلم میں طاقت

ہوش گم کردہ ہیں کیا ساکن سدری لکھیں


تیرے آقا نے تجھے یاد کیا ہے محضر

کاش خط میں مجھے یہ اہل مدینہ لکھیں 
 ——

عرش پر نور مصطفی دیکھا

 عرش پر نور مصطفی دیکھا

آئینہ گرنے آئینہ دیکھا


ان کو دیکھا تو بول اٹھے جبریل

کوئی تم سا نہ دوسرا دیکھا


رخصتی جب ہوئی مدینے سے

ہم نے مڑ مڑ کے راستہ دیکھا


نور خضرہ سے لو لگائی ہے

جب بھی دل کا دیا بجھا دیکھا


جب مدینے کی یاد آئی ہے

دل کا عالم عجیب سا دیکھا


خوش ہے آقا پہ کر کے سب قرباں

ایک ضعیفہ کا حوصلہ دیکھا


دی مدینے سے آپ نے تسکین

دل جو میرا کبھی دکھا دیکھا


اپنے گھر میں حلیمہ بی بی نے

چاند جھولے میں جھولتا دیکھا


آج کی صبح آئے وہ محضر

جن کا نبیوں نے آسرا دیکھا
 ——

دوری طیبہ ہے کیا اور حاضری کیا چیز ہے

 دوری طیبہ ہے کیا اور حاضری کیا چیز ہے

ہم سے پوچھو موت کیا ہے زندگی کیا چیز ہے


دل میں جس کے ہے غم طیبہ یہ اس سے پوچھئے

بے کسی کہتے ہیں کس کو بے بسی کیا چیز ہے


اپنی آنکھیں ان کے تلووں سے ہیں ملتے جبرئیل

ہے خدا بھی ان کا طالب آدمی کیا چیز ہے


حضرت صدیق اکبر ہی بتائیں گے یہ راز

دولت دنیا ہے کیا اور مفلسی کیا چیز ہے


قتل کی نیت سے آئے اور عادل بن گئے

کھل گیا سب پر کہ مرضی نبی کیا چیز ہے


ایک حبشی کو دو عالم کی حکومت مل گئی

دیکھ لے دنیا کہ بندہ پروری کیا چیز ہے


کچھ دھڑکتا تھا مرے سینے میں جب طیبہ میں تھا

سوچتا ہوں وقت رخصت رہ گئی کیا چیز ہے


یہ رکوع محضر یہ سجدے یہ قیام اور یہ قعود

سب ادائے مصطفیٰ ہے بندگی کیا چیز ہے
 ——

ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ محبوب خدا ہو

 ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ محبوب خدا ہو

لیکن یہ خدا جانے کہ تم کون ہو کیا ہو


کچھ مجھ کو بھی سرکار کے صدقہ میں عطا ہو

سرکار مرے آپ کی عترت کا بھلا ہو


قرآن بھی جب کرتا ہے توصیف محمد

پھر کیسے بھلا نعت کا حق ہم سے ادا ہو


وہ کیوں ہو کسی نعمت کونین کا طالب

سرکار مدینہ کے جو ٹکڑوں پہ پلا ہو


جلتے ہوئے سورج کی شعاعوں کا اثر کیا

جب سایہ فگن دامن محبوب خدا ہو


بس تھوڑی سی خاک در سرکار اڑا لا

اتنا تو کرم مجھ کبھی باد صبا ہو


ممکن ہی نہیں اس کو جلا پائے جہنم

جو آتش فرقت میں مدینے کی جلا ہو


جبریل کو کس طرح سے عرفان ہو تیرا

سمجھے وہ تجھے جو ترے رتبے سے سوا ہو


سرکار اسے آپ کا کہتی ہے یہ دنیا

محضر سے یہ زنجیرۂ نسبت نہ جدا ہو
 ——

شاہ کار قدرت ہے آمنہ کی گودی میں

 شاہ کار قدرت ہے آمنہ کی گودی میں

دو جہاں کی رحمت ہے آمنہ کی گودی میں


آدمی پہ بھاری ہے لمحہ لمحہ ہستی کا

وقت کی ضرورت ہے آمنہ کی گودی میں


ظلمت جہالت کا کیوں نہ دل دھڑک اٹھے

نور علم وحدت ہے آمنہ کی گودی میں


جلوہ ریزیاں جس کی ہیں جبینِ آدم میں

حق کی وہ امانت ہے آمنہ کی گودی میں


آج ہوگیا پورا سلسلہ نبوت کا

خاتم رسالت ہے آمنہ کی گودی میں


لگتا ہے سمٹ آئی کائنات مرکز پر

آج کتنی وسعت ہے آمنہ کی گودی میں


عرش و فرش سب اس کے دائرے کے اندر ہیں

نقطۂ محبت ہے آمنہ کی گودی میں


حسن یوسفی جس کا اک جمیل پر تو ہے

وہ حسین صورت ہے آمنہ کی گودی میں


زندگی کو جینے کا راستہ ملا محضر

حاصل شریعت ہے آمنہ کی گودی میں
 ——

اب دل کی تمنا ہے مدینے کی طرف چل

 اب دل کی تمنا ہے مدینے کی طرف چل

اک حشر سا برپا ہے مدینے کی طرف چل


دنیا ستم آرا ہے مدینے کی طرف چل

کوئی نہیں اپنا ہے مدینے کی طرف چل


روضہ کا وہ سرکار کے پر نور نظاره

نظروں میں مچلتا ہے مدینے کی طرف چل


اس در پہ سکوں پائے گا کیوں اے دلِ مضطر

دنیا میں بھٹکتا ہے مدینے کی طرف چل


دنیا کے نظاروں سے بہلتا ہی نہیں دل

نظروں کا تقاضہ ہے مدینے کی طرف چل


ہر سمت سے آتی ہیں درودوں کی صدائیں

ماحول کا منشاء ہے مدینے کی طرف چل


کیوں محضر علی خانۂ صابو میں پڑا ہے

آقا نے بلایا ہے مدینے کی طرف چل
 ——

جو دل میں نبی کی محبت نہیں ہے

 جو دل میں نبی کی محبت نہیں ہے
تو کوئی عبادت عبادت نہیں ہے

ہوا ہے جو دیوانہ عشق نبی میں

اسے ہوش کی پھر ضرورت نہیں ہے


مدد میرے آقا کہ دریائے غم سے

کوئی پار اترنے کی صورت نہیں ہے


دل و جاں محمد کی صورت پہ صدقہ

کوئی ایسی خلقت میں صورت نہیں ہے


زمین و فلک چاند سورج ستارے

محمد کی کس پر حکومت نہیں ہے


یہ فرمادیں آقا مدینہ بلا کے

تجھے واپسی کی اجازت نہیں ہے


در مصطفیٰ پہنچ جائے محضر

سوا اس کے اب کوئی حسرت نہیں ہے
 ——

آئے شاہ امم آئے شاہ امم

 دور کرنے زمانے سے ظلم و ستم

آئے شاہ امم آئے شاہ امم

خشک دھرتی پہ برساتے ابر کرم

آئے شاہ امم آئے شاہ امم


شرک و بدعت کا جب ہر طرف راج تھا

ماہ و انجم کو سمجھا گیا دیوتا

جب خدا بن گئے پتھروں کے صنم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


قصر کسری پہ طاری ہوا زلزلہ

سر بسجدہ ہوئے پتھروں کے خدا

کہہ اٹھے جھوم کر عرش ولوح و قلم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


راج جبر و ستم کا جہاں سے مٹا

مل گئی گمرہی کو صراط خدا

ہو گئے ہر مصیبت سے آزاد ہم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


آج علم و فضیلت کو جاں مل گئی

آج قرآن حق کو زباں مل گئ

آج کی صبح توڑا جہالت نے دم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


مٹ چکی تھی زمانے سے انسانیت

نام باطل کا محضر تھا حقانیت

وہ تو کہیے خدا نے کیا یہ کرم


آئے شاہ امم آئے شاہ اممa
 ——

Top Categories