madaarimedia

جھکی آقا کے قدموں پہ جبیں معلوم ہوتی ہے

 جھکی آقا کے قدموں پہ جبیں معلوم ہوتی ہے

یہ رفعت قسمت روح الامیں معلوم ہوتی ہے


محبت آپ کی دل میں مکیں معلوم ہوتی ہے

مری تقدیر بھی سدریٰ نشیں معلوم ہوتی ہے


جہاں پہ رکھ دئے ہیں پاؤں سرکار رسالت نے

زمیں وه نازش عرش بریں معلوم ہوتی ہے


کرم بے کس پہ فرما دیجئے آقا کہ طیبہ تک

رسائی کی کوئی صورت نہیں معلوم ہوتی ہے


دیار نور سے نزدیک تر ہم آگئے شاید

جھکی فرط عقیدت سے جبیں معلوم ہوتی ہے


اسی سے ماہ وانجم اکتساب فیض کرتے ہیں

مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں معلوم ہوتی ہے


نگاہ غور سے دیکھو تو کوئی بھی عبادت ہو

ادائے رحمۃ اللعالمیں معلوم ہوتی ہے


کرم یہ نسبتِ سرکار کا ہے جو تجھے محضر

مدینے کی ہر اک شے دل نشیں معلوم ہوتی ہے
 ——

وہ گیسو احمد معنبر معنبر

 وہ گیسو احمد معنبر معنبر

مدینے کی گلیاں معطر معطر


مدینے میں ہے چشم و دل کا یہ عالم

مجلہ مجلہ منور منور


جسے سن کے کلمہ پڑھیں سنگریزے

وہ ہے گفتگوئے موثر موثر


رسول معظم کے آنے سے پہلے

تھا ماحول کتنا مکدر مکدر


تلاش دیار نبی میں پھرا ہوں

بیاباں بیاباں سمندر سمندر


ہوئی جس کی تخلیق ہے اول اول

وہی ذات عالی موخر موخر


ہے آنکھوں میں محضر جمال مدینہ

بنا اب ہمارا مقدر مقدر
 ——

بے سہارا تھے ہم آسرا مل گیا

 بے سہارا تھے ہم آسرا مل گیا

یعنی دامان خیر الورى مل گیا


اب کسی رہنما کی ضرورت نہیں

مجھ کو سرکار کا نقش پا مل گیا


میری آوارہ پائی ہوئی مطمئن

جب سے شہر حبیب خدا مل گیا


کم ہے جو ناز قسمت پہ امت کرے

باعث نازش انبیاء مل گیا


کیا کہے بد نصیبی ابو جہل کی

کوئی پوچھے عمر سے کہ کیا مل گیا


سو گئے مطمئن ہو کے شیر خدا

جب انہیں بستر مصطفیٰ مل گیا


ہیں غریبوں کی جھرمٹ میں جلوہ فگن

ہم کو آقا کا محضر پتہ مل گیا
 ——

ہے جہاں بر سر پیکار مدینے والے

 ہے جہاں بر سر پیکار مدینے والے

آپ ہی ہیں مرے غمخوار مدینے والے


فکر کونین سے آزاد نظر آتا ہے

آپ کے غم کا گرفتار مدینے والے


کاش ہو جائے میسر ترا دیدار جمال

تشنہ لب ہیں ترے میخوار مدینے والے


موتی برساتا ہی رہتا ہے تیرا ابر کرم

ترا دربار ہے دربار مدینے والے


اپنا مقصود نظر کیوں نہ اسے مل جائے

ہو جسے آپ کا دیدار مدینے والے


ہوں گے محروم نہ محشر میں بھی انشاء اللہ

تیری رحمت کے طلبگار مدینے والے


عرض کر پیش مسیحائے دو عالم محضر

ہم بھی ہیں آپ کے بیمار مدینے والے
 ——

دل کو طواف گنبد خضری سکھائیں گے

 دل کو طواف گنبد خضری سکھائیں گے

ہم خانۂ خدا کو مدینہ بنائیں گے


رسوا نہ ہونے دیں گے وہ میدان حشر میں

دامن میں اپنے رحمت عالم چھپائیں گے


مشکل ہے نعت گوئی مگر یہ یقین ہے

آقا سنبھال لیں گے جو ہم ڈگمگائیں گے


ہر لب پہ ہوگا تحفہ درود و سلام کا

نعت رسول پاک جو ہم گن گنائیں گے


جب تک سوار دوش رہیں گے حسین پاک

سجدے سے سر نہ رحمت عالم اٹھائیں گے


ہنس ہنس کے جان دیتے ہیں دیوانۂ رسول

جب سے سنا ہے قبر میں سرکار آئیں گے


پہنچے گا یہ بھی پاک کھجوروں کے سایے میں

محضر کے بھی نصیب کبھی جگمگائیں گے
 ——

یہ کہتے ہیں مری آنکھوں کے آنسو پاؤں کے چھالے

 یہ کہتے ہیں مری آنکھوں کے آنسو پاؤں کے چھالے

بہار گلشن طیبہ دکھادے رحمتوں والے


لباس اپنا ہی کیا جس کو مذاق عطر بیزی ہو

پسینے سے رسول اللہ کے نسلوں کو مہکالے


صحابہ اس طرح حلقہ کئے حاضر ہیں خدمت میں

کہ جیسے چاند کو گھیرے ہوئے ہیں نور کے ہالے


نہیں اب منکروں کو منہ چھپانے کی جگہ کوئی

رسول اللہ لے کر آرہے ہیں اپنے گھر والے


فراق ارض طیبہ میں تڑپتے ہو گئی مدت

اثر لاتے ہیں دیکھیں کب دکھے دل کے مرے نالے


تجھے پھر زندگی کی الجھنیں موقع نہ دیں شاید

مقدر کا ہر الجھا مسئلہ طیبہ میں سلجھالے


بلائیں گے تجھے اب کے برس آقا مدینے میں

دل مضطر کو محضر اس طرح تو اپنے سمجھا لے
 ——

یہ جو بارگاہ رسول سے کوئی دور کوئی قریب ہے

 یہ جو بارگاہ رسول سے کوئی دور کوئی قریب ہے

یہ سب اپنی اپنی ہیں قسمتیں یہ سب اپنا اپنا نصیب ہے


میں مریض عشق رسول ہوں مجھے چارہ ساز سے کیا غرض

مجھے درد جس نے عطا کیا وہی درد دل کا طبیب ہے


جو عمر مدینے سے دے ندا سنے کس طرح سے نہ ساریہ

کہ یہ اس عظیم کی ہے صدا جو در نبی کا خطیب ہے


وہ اخوتوں کا سبق دیا کہ جہان سارا پکار اٹھا

نہ ہے شاہ کوئی نہ ہے گدا نہ امیر ہے نہ غریب ہے


وہ جو بے کسوں پہ ہے مہرباں ہے وہی تو باعث انس و جاں

ہے اسی کا صدقہ یہ دو جہاں وہ خدا کا پیارا حبیب ہے


ہے انہیں کے نور سے مفتخر بہ خدا جبین ابو البشر

ہو کوئی رسول کہ ہو نبی میرے مصطفیٰ کا نقیب ہے


کبھی جلوہ فرما ہیں فرش پر کبھی مہمان ہیں عرش پر

کبھی لا مکاں پہ ہیں جلوہ گر یہ ادا نبی کی عجیب ہے


چلو محضر ان کی پناہ میں تو جنوں کو چھوڑ دو راہ میں

رہے احترام نگاہ میں کہ وہ بارگاہ حبیب ہے
 ——

ہجر طیبہ میں جب کہا طیبہ

 ہجر طیبہ میں جب کہا طیبہ

کھینچ کے انکھوں میں آگیا طیبہ


ہیچ ہے پھر ہر ایک نظارہ

بس دکھا دے مجھے خدا طیبہ


دل کو کہہ کہہ کے یہ تسلی دی

دیکھ ناداں وہ آگیا طیبہ


اور ہیں جن کے ہیں سہارے اور

ہے فقط اپنا آسرا طیبہ


باغ جنت نہ چاہیے مجھ کو

راس آئی تیری فضا طیبہ


کیوں پریشان ہو اے چارہ گرو

ہر مرض کی ہے جب دوا طیبہ


دلکشی منظروں کی ختم ہوئی

دل میں جب سے سما گیا طیبہ


دونوں ہیں مرکز نگاہ جنوں

دل نشیں کعبہ دل ربا طیبہ


ہے ہر اک دل کی آرزو جنت

ہے میرے دل کی التجا طیبہ


تیری جنت میں جی نہیں لگتا

چلا رضوان میں چلا طیبہ


ہائے کر کے میں رہ گیا محضر

جب چلا کوئی قافلہ طیبہ
 ——

جبیں میں سجدے چھپائے در نبی کے لئے

 جبیں میں سجدے چھپائے در نبی کے لئے

جنون شوق ہے بے تاب بندگی کے لئے


شب فراق مدینہ میں ظلمتیں کیسی

دئے جلائے ہیں پلکوں پہ روشنی کے لئے


در رسول پہ تخصیص خاص و عام نہیں

مرے حضور ہیں رحمت ہر آدمی کے لئے


لہو لہان ہیں طائف میں رحمت کونین

دعا ہے پھر بھی لبوں پر ہر امتی کے لئے


رسول پاک کو کاندھوں پہ لے چلے صدیق

عروج رکھا تھا حق نے یہ آپ ہی کے لئے


دعائیں مانگ کہ مل جائے دل کو یہ نعمت

غم رسول ضروری ہے زندگی کے لئے


خلوص دل سے کرو ذکر مصطفیٰ محضر

ہر اضطراب میں تسکین دائمی کے لئے
 ——

جہاں قرب اولیاء ہے جہاں الفت نبی ہے

 جہاں قرب اولیاء ہے جہاں الفت نبی ہے

وہاں کیف زندگی ہے وہاں لطف بندگی ہے


یہ جو عشق مصطفیٰ میں ملی مجھ کو بے خودی ہے

ہے یہی میری عبادت یہی میری بندگی ہے


میری زندگی میں زینت میری قبر میں ہے رونق

غم مصطفی سلامت میرے پاس کیا کمی ہے


نہ جہاں میں کوئی باقی تھا وقار آدمیت

یہ حضور کا کرم ہے کہ وقار آدمی ہے


میں غلام مصطفیٰ ہوں میں مدار کا ہوں خادم

مرے اک طرف سمندر مرے اک طرف ندی ہے
 ——

Top Categories