madaarimedia

جب کہ قرآن کی تفسیر ہے سیرت تیری

 جب کہ قرآن کی تفسیر ہے سیرت تیری

کیوں نہ اللہ کی طاعت ہو اطاعت تیری


تیرے سائے سے نہ میں گنبد خضری ہٹتا

میری قسمت میں جو ہوتی کہیں قربت تیری


اک گنہگار کا دل اور تیرے محبوب کی یاد

واقعی ہے مرے اللہ عنایت تیری


آسماں ہو کہ زمیں ہو کہ سر عرش بریں

میرے آقا ہے ہر اک شے پر حکومت تیری


تیرے دل میں ہے اگر عشق محمد محضر

تو خدا تیرا نبی تیرے ہیں جنت تیری
 ——

عشق احمد میں اسیر غم ہجراں ہوکر

 عشق احمد میں اسیر غم ہجراں ہوکر

بیٹھا غربت میں ہوں فردوس بداماں ہوکر


میرے آقا نے کئے چاند کے جب دو ٹکڑے

مشرکیں ره گئے انگشت بدنداں ہوکر


دیکھنا حشر میں چھا جائیں گے رحمت بنکر

گیسوئے احمد مختار پریشان ہو کر


جب کوئی جاتا نظر آیا مدینے کی طرف

رہ گیا دل میرا مجبور و حراساں ہوکر


چاند سورج تو اشاروں پہ محمد کے چلیں

ہائے وہ لوگ جو جھک پائے نہ انساں ہوکر

 ——

مونس و ہمدرد عالم ہیں مرے پیارے نبی

 مونس و ہمدرد عالم ہیں مرے پیارے نبی

مرحبا کتنے مکرم ہیں مرے پیارے نبی


منصب محبوبیت پہ کوئی بھی فائض نہیں

سارے نبیوں میں معظم ہیں مرے پیارے نبی


اے زمانے والو مجھ کو بے سہارا مت کہو

میرے مونس میرے ہمدم ہیں مرے پیارے نبی


سنگ ریزے بول اٹھے ہاتھ میں بوجہل کے

عظمتوں والے ہیں اعظم ہیں مرے پیارے نبی


آپ کی سیرت ہی کافی ہے تسلی کے لئے

غم نہیں جو سیکڑوں غم ہیں مرے پیارے نبی


کوئی ڈھونڈے بھی تو پائے آپ کا سایہ کہاں

آپ تو نور مجسم ہیں مرے پیارے نبی


خلد میں جانے سے محضر کون روکے گا مجھے

جب شفیع ہر دو عالم ہیں مرے پیارے نبی
 ——

علاج ہر بلائے غم ہیں کملی اوڑھنے والے

 علاج ہر بلائے غم ہیں کملی اوڑھنے والے

مرے مونس مرے مرے ہمدم ہیں کملی اوڑھنے والے


کرم کی اک نظر کر دیجئے صدقہ نواسوں کا

ستم دنیا کے اب پیہم ہیں کملی اوڑھنے والے


ہوئے ہیں منعکس حسن وقبا کے زاوئے جس میں

وہی آئینہ عالم ہیں کملی اوڑھنے والے


ز آدم تا بعیسی ہر نبی نے یہ شہادت دی

خدا کے بعد بس اعظم ہیں کملی اوڑھنے والے


اسی در پر بلا لیجے خدا را اب تو محضر کو

جہاں سب کی جبینیں خم ہیں کملی اوڑھنے والے
 ——

ہر اک نبی نے ان کا کیا احترام ہے

 ہر اک نبی نے ان کا کیا احترام ہے

کتنا بلند میرے نبی کا مقام ہے


منکر نکیر کر نہ سکے پھر کوئی سوال

پایا جو میرے لب پہ محمد کا نام ہے


ابھرے جو آفتاب تو حیرت کی بات کیا

ہاتھوں میں ان کے دونوں جہاں کا نظام ہے


میں پڑھ رہا ہوں نعت نبی اور بزم میں

جاری ہر ایک لب پہ درود و سلام ہے


انوار صبح ہوتے ہیں سو جان سے فدا

کتنی حسین ارضِ مدینہ کی شام ہے


اے گردش زمانہ نہ محضر سے تو الجھ

معلوم ہے تجھے یہ نبی کا غلام ہے
 ——

نہیں دنیا میں ہے کوئی ہمارا یا رسول اللہ

 نہیں دنیا میں ہے کوئی ہمارا یا رسول اللہ

سہارا یا رسول اللہ سہارا یا رسول الله


ہے گردش میں مقدر کا ستارا یا رسول اللہ

بس اک نظر کرم ہم پر خدا را یا رسول الله


دیا ہے آپ نے اس کو سہارا یا رسول اللہ

کسی نے آپ کو جس دم پکارا یا رسول اللہ


مدینے کی طرف جاتا ہوا جب کوئی ملتا ہے

تڑپتا ہے دل بے کس ہمارا یا رسول الله


ہوئی سایہ فگن ہے اس کے سر پر رحمت باری

قیامت میں تمہیں جس نے پکارا یا رسول اللہ


میسر ہو کبھی سر کار یہ دل کی تمنا ہے

نظر کو آپ کے در کا نظارہ یا رسول اللہ


ہے محضر ہند میں اور آپ ہیں گلزار طیبہ میں

کہاں تک دل کرے اس کو گوارا یا رسول اللہ
 ——

روح کونین ہے قربان مدینے والے

 روح کونین ہے قربان مدینے والے

مرحبا کتنے ہیں ذیشان مدینے والے


رفعت اوج ہر امکان مدینے والے

حاصل صنعت رحمان مدینے والے


میں بھی پہنچوں کبھی طیبہ میں بھکاری بن کر

میرے دل میں ہے یہ ارمان مدینے والے


کس تحمل سے سر عرش بریں پہنچے ہیں

بن کے اللہ کے مہمان مدینے والے


میری جانب بھی کبھی اٹھے عنایت کی نظر

میری مشکل بھی ہو آسان مدینے والے


سیل طوفان حوادث کا ہمیں کیا خطرہ

جب ہمارے ہیں نگہبان مدینے والے


مدحت پاک میں دے اپنی زباں کو جنبش

آدمی کا نہیں امکان مدینے والے


رحمتیں آپ نے برسائیں گنہگاروں پر

آپ کا کتنا ہے احسان مدینے والے


مطمئن دل ہے مرا روزِ جزا سے محضر

میری بخشش کے ہیں سامان مدینے والے
 ——

کتنا کرم ہے دیکھیے مجھ پر حضور کا

 کتنا کرم ہے دیکھیے مجھ پر حضور کا
مشہور میں غلام ہوں گھر گھر حضور کا

محفوظ وہ رہے گا قیامت کی دھوپ سے

دامن رہے گا جس کے بھی سر پر حضور کا


اس بات کا کلام الہی گواہ ہے

ہوگا نہ ہو سکا کوئی ہمسر حضور کا


چشم تصورات کے قربان جائیے

روضہ ہے میرے سینے کے اندر حضور کا


آقا اگر بلائیں تو ہو حاضری نصیب

ہر چند یہ غلام ہے بے زر حضور کا


دو نیم ماہتاب اشارے میں افتاب

اور کرتے ورد کلمہ ہیں پتھر حضور کا


جب جا کے لامکاں سے آئے مکان میں

ہلتی تھی کنڈی گرم تھا بستر حضور کا


چومیں قدم نہ کیسے دو عالم کی رفعتیں

ادنی سا اک غلام ہے محضر حضور کا
 ——

مے نوش ہوں ہے کتنے قرینے کی آرزو

 مے نوش ہوں ہے کتنے قرینے کی آرزو

میخانۂ نبی سے ہے پینے کی آرزو


اس عاشق رسول کی نسلیں مہک اٹھیں

تھی جس کے دل میں ان کے پسینے کی آرزو


جب سے رسول پاک نے ہیں رکھ دئیے قدم

جنت بھی کر رہی ہے مدینے کی آرزو


کافی ہے مرے دل کے لئے عشق مصطفیٰ

کیا پوچھتے ہو کیسے ہے جینے کی آرزو


آنکھوں کے سامنے ہے سمندر گناہ کا

رکھتا ہوں پنجتن کے سفینے کی آرزو


اک سمت میرا ذہن ہے اک سمت میرا دل

مکے کی ہے تلاش مدینے کی آرزو


یوں دل کو عشق سرور عالم کی ہے طلب

جیسے کرے انگوٹھی نگینے کی آرزو


شاید کیا ہے یاد دیار رسول نے

بے چین کر رہی ہے مدینے کی آرزو


بو جہل چاہتا تھا نہ ہو دین کا فروغ

پوری نہ ہوسکی یہ کمینے کی آرزو


قطب المدار طیبہ سے جولے کے آئے ہیں

محضر ہے مجھ کو ایسے دفینے کی آرزو
 ——

کب تک یہ کہہ کر ہم آقا اپنا دل بہہ لائیں گے

کب تک یہ کہہ کر ہم آقا اپنا دل بہہ لائیں گے

اب کے امیدیں راس آئیں گی اب کی مدینے جائیں گے


عظمت آقا کے سب منکر آگ میں ڈالے جائیں گے

جو ہیں وفاداران رسالت وہ کوثر چھلکا ئیں گے


کیسی تپش اور کیسی گرمی منہ کو چھپائے گا سورج بھی

سر پہ گنہگاروں کے وہ گیسو حشر میں جب لہرائیں گے


لگ جائے گا پار سفینہ ڈوبنے والے وہ ہے مدینہ

جب ان کی تو دے گا دہائی طوفاں خود کترائیں گے


کیسی دوری کیا مہجوری دیں گے جب آقا اذن حضوری

پہنچیں گے ہم اڑ کے مدینہ ایسے بھی دن آئیں گے


آنکھ میں جو غم کے بادل ہیں ان کو کم قیمت نہ کہو

یہ بادل ہیں ہجر نبی کے یہ موتی برسائیں گے


محضر ان کا ہر متوالا کرتا ہے مرنے کی تمنا

جب سے سنا ہے کنج لحد میں وہ جلوہ دکھلائیں گے
 ——

Top Categories