madaarimedia

صبا نے آکر دیا یہ مژدہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں

صبا نے آکر دیا یہ مژدہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں

سلام رخصت تجھے تمنا حضور طیبہ بلا رہے ہیں


نہ آ مرے پاس فکر دنیا حضور طیبہ بلا رہے ہیں

نہ روکے کوئی بھی میرا رستہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں


جبیں کو اپنی قدم بنانا نظر نظر کو ادب سکھانا

کہ دیکھنا ہے جمال خضری حضور طیبہ بلا رہے ہیں


بڑھایا آقا نے تیرا رتبہ قبول ہوگا ہر ایک سجدہ

چمک اٹھا ہے ترا ستارہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں


نگاہ سردار انبیاء میں بس اک یہی قیمتی ہے تحفہ

سنبھال کر رکھ دل شکستہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں


عجیب تر عشق کا چلن ہے کہ چال میں والہانہ پن ہے

بلال نے خواب میں جو دیکھا حضور طیبہ بلا رہے ہیں


میں عاصی اور رحمتوں کا زینہ کہاں یہ محضر کہاں مدینہ

دعا ہے ماں کی کرم خدا کا حضور طیبہ بلا رہے ہیں
 ——

جو بھی مرے حضور کے در کے قریب ہیں

 جو بھی مرے حضور کے در کے قریب ہیں

یہ سوچئے وہ کتنے بڑے خوش نصیب ہیں


آنکھوں سے اپنی موتی لٹاتے ہیں عشق کے

کہنے کو ان کے چاہنے والے غریب ہیں


خنجر گلے پہ پھر بھی ہے سجدے کی آرزو

آقائے کائنات کے پیارے عجیب ہیں


کوئی مسیح ، کوئی کلیم اور کوئی خلیل

لیکن مرے حضور خدا کے حبیب ہیں


میں تم میں چھوڑ جاتا ہوں قرآں و اپنی آل

وہ کہتے ہیں جو دین کے پہلے خطیب ہیں


لائیں وہ کیا نگاہ میں جنت کی راحتیں

طیبہ کی نعمتیں جنہیں محضر نصیب ہیں
 ——

بھروسہ پل کا نہیں یہ گھڑی ملے نہ ملے

 بھروسہ پل کا نہیں یہ گھڑی ملے نہ ملے

چلو مدینے یہ موقع کبھی ملے نہ ملے


تو جذب شوق کو اپنا بنا رفیق سفر

سفر طویل ہے ساتھی کوئی ملے نہ ملے


سر نیاز ہر اک گام پر لٹا سجدے

تجھے مدینے کی پھر یہ گلی ملے نہ ملے


در نبی پہ حضوری کے واسطے مجھ کو

جنون عشق ہے کافی کوئی ملے نہ ملے


حضور جس میں ہوں بالیں پر جلوہ گر مالک

ملے وہ موت مجھے زندگی ملے نہ ملے


اسے تو صحن حرم میں سلام کرتا چل

دیار ہوش میں دیوانگی ملے نہ ملے


نہال کیوں نہ ہو دید جمال خضری سے

کہ دل کو پھر کبھی ایسی خوشی ملے نہ ملے


سنا دے جھوم کے اشعار نعت اے محضر

کہ پھر فضائے دیار نبی ملے نہ ملے
 ——

کرم ہے یہ زلف مصطفیٰ کا کہ چاند نے پائی چاندنی ہے

 کرم ہے یہ زلف مصطفیٰ کا کہ چاند نے پائی چاندنی ہے

یہ زلف والیل کا ہے صدقہ کہ بن گئی رات سُرمئی ہے


ہے ذرہ ذرہ ترا نگینہ عجب ہے تو گلشن مدینہ

ہر اک کلی مسکرا رہی ہے ہر ایک گل پر شگفتگی ہے


فراق طیبہ کی بیقراری گزاری رو روکے رات ساری

ہمارے اشکوں کا ہے تصرف کہ بن گئی صبح شب نمی ہے


مبارک اسکو خدا کی رحمت نثار اس پر جہاں کی عظمت

بڑا مقدر کا وہ دھنی ہے نبی کی چوکھٹ جسے ملی ہے


ہر ایک برگ و شجر ہے صدقے ہر ایک باغ و ثمر فدا

ہے نخیل خضری کی پتیوں پر نثار جنت کی ہر کلی ہے

اے سر زمین نبیّ اطہر ہے ریزہ ریزہ ترا منور

گزر گئے تم جہاں جہاں سے وہاں پہ خوشبو بکھر گئی ہے


عرب کا وہ دور جاہلا نہ وہ باتوں باتوں میں خوں بہانا

تمہاری سیرت کا معجزہ ہے کہ چھا گئی امن و آشتی ہے

 ——

گیت یارو محمد کے گایا کرو

 گیت یارو محمد کے گایا کرو

اور عقیدت کے موتی لٹایا کرو


جب ہواوں مدینے میں جایا کرو

نکہت مصطفی لے کے آیا کرو


جب کسی کی زباں پہ ہونام نبی

تم درودوں کی ڈالی سجایا کرو


عظمت مصطفی دل میں ہو جاگزیں

اپنے بچوں کو نعتیں سنایا کرو


قافلے والے جب سوئے طیبہ چلیں

راہ میں ان کی پلکیں بچھایا کرو


مصطفی تو سراپا ہیں ابر کرم

عاصیو! رحمتوں میں نہایا کرو


آرزو کا دیا جب بھی بجھنے لگے

لو حبیب خدا سے لگایا کرو


سنت مصطفی تو ہے محضر یہی

دشمنوں کو گلے سے لگایا کرو
 ——

لب پہ انہیں کا ذکر بصد احترام ہے

 لب پہ انہیں کا ذکر بصد احترام ہے

بھیجا خدا نے جن پہ درود و سلام ہے


دوزخ ملی تھی وہ تو یہ کہئے حضور نے

فرما دیا کہ یہ بھی ہمارا غلام ہے


قسمت سے مل گیا جسے دامان مصطفیٰ

واللہ اس پہ آتش دوزخ حرام ہے


اس کو یہ حادثات جہاں کیا ستائیں گے

جس کی نظر میں سیرت خیرالانام ہے


اب میرے جذب شوق کا عالم نہ پوچھئے

لے کر صبا مدینے سے آئی پیام ہے


سرکار سوئے عرشِ بریں جارہے ہیں آج

سنتے ہیں قدسیوں میں بڑا اہتمام ہے


آؤ مٹا کے فرق من و تو پئیں ادیب”

میخانہ رسول کا گردش میں جام ہے

  _______________

نیاز عشق بھی اور ناز دلربائی بھی

 نیاز عشق بھی اور ناز دلربائی بھی

عجیب چیز ہے یہ شانِ مصطفائی بھی


قدم پہ جھک گئی شاہوں کی کج کلاہی بھی

تها دیدنی تیرا اعجاز بے نوائی بھی


بہت کہا تو بشر کہہ کے ہو گیا خاموش

جو تیری ذات کسی کی سمجھ میں آئی بھی


قیود حسن کے خود اپنے ہاتھ سے توڑے

بڑے غضب کی ہے یہ لذت جدائی بھی


وہاں بھی رحمت عالم کا فیض جاری ہے

جہاں پہ فکر بشر کی نہیں رسائی بھی


یہ مرتبہ نہیں حاصل کسی کو تیرے سوا

خدا بھی تیرا ہے تیری ہے سب خدائی بھی


رسول پاک کو دیکھو عمل کے میداں میں

جو بات منہ سے نکالی وہ کر دکھائی بھی


نگاه رحمت عالم ہے عاصیوں کے لیے

ادیب” کتنی مصیبت ہے بے گناہی بھی

  _______________

تکلف سے گریزاں سادگی معلوم ہوتی ہے

 تکلف سے گریزاں سادگی معلوم ہوتی ہے

یہ تعلیم حیات احمدی معلوم ہوتی ہے


حذف ریزوں میں بھی تابندگی معلوم ہوتی ہے

ارے یہ تو مدینے کی گلی معلوم ہوتی ہے


کچھ اس انداز سے عالم میں خورشید حرا چمکا

ہر اک ظلمت کدے میں روشنی معلوم ہوتی ہے


بجائے فرش مخمل فرش ہے ٹوٹی چٹائی کا

نرالی شان در بار نبی معلوم ہوتی ہے


سرایت کر گیا ہے سوز یوں قلب بلالی کا

اذاں میں آج بھی اک دلکشی معلوم ہوتی ہے


مئے حب نبی ہے مئے کشو کیا فکر بیش و کم

پیئے جاؤ جہاں تک تشنگی معلوم ہوتی ہے


یہ کہنا ہی پڑا جا کر قریب گنبد خضری

یہاں تو زندگی ہی زندگی معلوم ہوتی ہے


پہنچ پائے نہ اب تک گنبد خضری کیسائے میں

ادیب” اپنے جنوں ہی میں کمی معلوم ہوتی ہے

  _______________

سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ

 سر تا بہ قدم رحمت خالق کا خزینہ
سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ

تکتی ہے ستاروں کی نظر جس کو فلک سے

نادم ہے رخ شمس و قمر جس کی چمک سے

تمثیل ہی ممکن نہیں جس کی وہ نگینہ


سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ


آنکھیں ہیں کہ چھلکے ہوئے دونور کے ساغر

لبہائے مبارک ہیں کہ برگ گل احمر

گیسوئے معنبر ہیں کہ ساون کا مہینہ


سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ


دی طاعت حق کی خم گردن نے گواہی

وہ پشت جو خلقت کی کرے پشت پناہی

سینہ ہے کہ ہے معرفت حق کا دفینہ


سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ


تر آب ندامت سے ہر اک گل کی جبیں ہے

بوئے عرقِ جسم کا ثانی ہی نہیں ہے

آہوئے ختن سونگھے تو آجائے پسینہ


سرکار مدینہ مرے سرکار مدینہ

  _______________

دل جمال رخ احمد کا طلبگار تو ہے

 دل جمال رخ احمد کا طلبگار تو ہے

تاب دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے


ہم نے مانا کہ نہیں جذب بلالی ہم میں

دل نواز اب بھی مگر الفت سرکار تو ہے


کچھ میسر نہیں ہم خاک نشینوں کو مگر

کملی والے ترا بخشا ہوا کردار تو ہے


راہ رو خود ہیں سیہ بخت اسے کیا کہئے

ورنہ روشن عمل قافلہ سالار تو ہے


کیا کروں بار ندامت سے نہ اٹھے جو نظر

سامنے جلوہ گر احمد مختار تو ہے


خیر اتنا تو کیا دل نے سلیقہ پیدا

عشق محبوب کا خالق سے طلبگار تو ہے


کم نہیں فخر یہ میرے دل وحشی کیلئے

حلقۂ گیسوئے احمد میں گرفتار تو ہے


ارض طیبہ سے بہت دور سہی دیوانہ

پھر بھی خاک در احمد کا پرستار تو ہے


آج بھی عالم غربت میں حضوری کی طلب

گوشے گوشے میں لئے اپنا دل زار تو ہے


دل کو ڈھارس ہے یہ میدانِ قیامت میں ادیب”

پشت پر رحمت عالم سا مددگار تو ہے

  _______________

Top Categories