madaarimedia

جلو میں اپنے ہجوم بہار لیکے چلو

 جلو میں اپنے ہجوم بہار لیکے چلو

مدینے والے کا سینے میں پیار لیکے چلو


رسول پاک سے ہر اختیار لیکے چلو

دوائے گروشِ لیل و نہار لیکے چلو


تمہاری حاضری ہوگی در نبی پہ قبول

مگر دعائے غریب الدیار لیکے چلو


دل شکستہ کا پرساں نہیں کوئی اس کو

حضور شافع روز شمار لیکے چلو


رفوگری تو کریں گی ہوائیں طیب کی

تم اپنا دامن دل تار تار کے چلو


سکوں کی بھیک در مصطفیٰ پے ملتی ہے

مدینے اپنا دل بیقرار لیکے چلو


خلوص عشق ہی پہنچائے گا تمہیں طیبہ

یہی یقین یہی اعتبار لیکے چلو


ستم کی آندھیاں تم کو ستا نہیں سکتیں

دیار طیبہ کا سر پر غبار لیکے چلو


ہمیشہ دھوپ کی سختی میں کام آئے گا

سروں پہ دامنِ قطب المدار لیکے چلو


انہیں سے دھلتے ہیں طیبہ میں داغ عشق ادیب”

تم اپنی آنکھوں کے دو آبشار لیکے چلو

  _______________

دل میں حسرت نہیں دیدار مدینہ کے سوا

 دل میں حسرت نہیں دیدار مدینہ کے سوا

سر میں سودہ نہیں سرکار مدینہ کے سوا


جس نے ہر گام پہ ہستی کے کئے ہیں سجدے

کون ہو سکتا ہے سرشار مدینہ کے سوا


ساری دنیا کی کوئی شے نہ سمائی اب تک

چشم دل میں در و دیوار مدینہ کے سوا


کون ہے حشر میں رکھ لے جو گنہگار کی لاج

رحمت سید ابرار مدینہ کے سوا


جو بنادے شب دیجور کو روز روشن

کس میں طاقت ہے یہ انوار مدینہ کے سوا


جس کو مسرور نہ کر پائے عطائے جنت

کون ہے اور پرستار مدینہ کے سوا


لیکے جاؤں بھی کہیں اور جو فریاد و فغاں

کب سنی جائیگی دربار مدینہ کے سوا


اس جہاں میں مرے ٹوٹے ہوئے دل کا سودا

ہو نہیں سکتا ہے بازارِ مدینہ کے سوا


عاشق طیبہ ہوں کیا لیکے کروں خلد ادیب”

چین آئے گانہ گلزار مدینہ کے سوا

  _______________

جنت کے راہی کیا تجھے یہ بھی شعور ہے

 جنت کے راہی کیا تجھے یہ بھی شعور ہے

پروانے پر نبی کی گواہی ضرور ہے


چشم کرم سے اپنی اسے جوڑ دیجئے

سرکار میرا شیشۂ دل چور چور ہے


ہر ذرے میں ہیں جلوۂ وحدت کی بجلیاں

ہے یہ گماں دیارِ مدینہ میں طور ہے


کیا شان ہے جناب بلال رسول کی

ہے جسم تو سیاہ مگر دل میں نور ہے


بھیجے ہیں خود ہی قرن میں سرکار نے سفیر

وہ بھی قریب تر ہے بظاہر جو دور ہے


ہر امتی کو ناز ہے بس ایک بات پر

آقا ہمارا شافع یوم النشور ہے


مہجور مصطفیٰ کی یہ قسمت تو دیکھئے

طیبہ سے چل کے آئی ہوائے سرور ہے


آئے ہیں پا پیادہ جنید اور بایزید

اتنا ہے با ادب جسے جتنا شعور ہے


ہے آپ کے کرم پہ بھروسہ مجھے حضور

لیکن میں کیا کروں کہ یہ دل ناصبور ہے


صدیق اور عمر کا یہ اللہ رے شرف

دونوں نے پایا قرب دوام حضور ہے


عثمان اور علی کے مراتب ہیں یہ ادیب”

مقسوم میں لکھی ہوئی تملیک نور ہے

  _______________

سلمان زمانے کا چلن بھول گئے ہیں

 سلمان زمانے کا چلن بھول گئے ہیں

طیبہ کی محبت میں وطن بھول گئے ہیں


آقا نے کرم یوں ہے کیا فرش زمیں پر

ہم تیرے ستم چرخ کہن بھول گئی ہیں


اللہ رے کیف لب گفتار رسالت

هم مستئ صہبائے سخن بھول گئے ہیں


خضری پہ نظر پڑتے ہی طیبہ کے مسافر

کہتے ہیں کسے رنج ومحن بھول گئے ہیں


ہم دیکھ کے کیفیت صحرائے مدینہ

شادابئی گلزار و چمن بھول گئے ہیں


خار رہ طیبہ نے ہیں وہ نقش بنائے

نقاش بھی آرائشِ فن بھول گئے ہیں


اے آندھیوں لے آؤ غبارِ رہ طیبہ

ہم لانا مدینے سے کفن بھول گئے ہیں


دیکھے ہیں ادیب” آج جو ذراتِ مدینہ

ہم چاند کی ہر ایک کرن بھول گئے ہیں

  _______________

بر پا بزم پیمبر ہوگی

 بر پا بزم پیمبر ہوگی

تا بہ قیامت گھر گھر ہوگی


عشق نبی کے جام چلیں گے

بھیڑ کنارِ کوثر ہوگی


دیوانوں کو عید ہے مرقد

دید جمال انور ہوگی


آئے وہ دیکھو سرور عالم

اب ہر ایک مہم سر ہوگی


دیکھیں گے سرکار کا جلوہ

بادہ کشی بے ساغر ہوگی


صبح کی زنجیریں جو ٹوٹیں

شام مدینے جا کر ہوگی


خلد ادیب” ہے دشت مدینہ

بستی کتنی سندر ہوگی

  _______________

یا رب مجھے وہ نعت کی توفیق عطا ہو

یا رب مجھے وہ نعت کی توفیق عطا ہو

جو رتبۂ آقا سے نہ کم ہو نہ سوا ہو


بے سود ہے ہر ایک دوا یا کہ دعا ہو

وہ دیکھ لیں بیمار کی جانب تو شفاء ہو


مالک مجھے صحرائے مدینہ بھی عطا ہو

جو خاک اڑانا ہی مقدر میں لکھا ہو


لائی ہے صبا نکہت سرکار مدینہ

اے بلبل توصیف نبی نغمہ سرا ہو


بر پائیے محشر کا سبب ہم تو یہ سمجھے

خلقت پہ عیاں عظمتِ محبوب خدا ہو


سرکار اٹھائیں گے کرم پاش نگاہیں

اے درد جگر اور سوا اور سوا ہو


پہونچا دیا جس نے مجھے دربار نبی تک

اللہ مرے درد محبت کا بھلا ہو


سختی وہ قیامت وہ میزان وه پرسش

سرکار اگر رحم نہ فرمائیں تو کیا ہو


ان پاک کھجوروں کے درختوں سے لپٹنا

جب تیرا مدینے میں گزر باد صبا ہو


باقی ہے ادیب” اب تو یہی آخری حسرت

جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو

  _______________

خدارا اے عازم مدینہ پہونچ کے پیش حضور عالی

 خدارا اے عازم مدینہ پہونچ کے پیش حضور عالی
بھلا نہ دینا ہمیں کو اس دم ہو جب کہ خیرات بٹنے والی

یہ جبر قسمت کے ظلم آخر کہاں تک اسے بیکسوں کے والی

گراں ہے اب تو غریب دل پر ابھرتے جذبوں کی پائمالی


کہاں وہ آداب عشق و مستی کہاں میں اک رند لاو بالی

یہ سب انہیں کا کرم ہے ورنہ کسے ملا جذبۂ بلالی


سلام اخلاص کی صدا پر اٹھے جب ان کی نگاہ رحمت

ادب سے اس وقت عرض کرنا ہمارا حال شکستہ حالی


تمام پنہائے دو جہاں میں بجز مدینے کی وادیوں کے

ہمارے دل کو سکوں کی دولت کہیں نہیں ہاتھ آنے والی


چمک اٹھی قسمت دو عالم کرم کا جب بھی کیا اشارہ

بدل گئی خلد سے جہنم جو رحمتوں کی نگاہ ڈالی


تری تجلی سے سبز گنبد نظام ہستی ہے اک حقیقت

جو تو نہ ہوتا تو بزم عالم تھی صرف اک جنت خیالی


کسی طرح جلوہ زار طیبہ ملے تری دید کی سعادت

اسی کا طالب ہر ایک دل ہے اسی کی ہے ہر نظر سوالی


ہیں جلوہ ہائے دیارِ طیبہ ادیب” ہر سمت آشکارا

ہمارا ذوق نظر انوکھا ہماری شانِ طلب نرالی

  _______________

محشر میں اس شان سے آیا کون و مکاں کا والی ہے

 محشر میں اس شان سے آیا کون و مکاں کا والی ہے

سر پر ہے دستار شفاعت دوش پہ کملی کالی ہے


نور مجسم کی آمد ہے ظلمت کی پامالی ہے

کوند رہی ہے برق تجلی رات گزرنے والی ہے


تلخی کو شیرینی دیکر بدلا دنیا کا ماحول

ظلمت کو پر نور بنایا زلف جو رخ پہ ڈالی ہے


سوچئے تو کیا خالق عالم ہم سے بھلا راضی ہوگا

نام نبی لب پہ ہے مگر دل عشق نبی سے خالی ہے


شافع محشر آپ جو چاہیں مالک محشر رحم کرے

ورنہ سزا سے بچنا کیسا مجرم خود اقبالی ہے


ساری دنیا مل کے جو چاہے ہم کو مٹا دے نا ممکن

خالق کے محبوب کے ذمے امت کی رکھوالی ہے


آپ کے در پر آئے تو کیسے کیا منہ لیکر آئے ادیب”

سرور عالم آپ سے نادم اس کی بداعمالی ہے

  _______________

یہ ممکنات سے ہے سب تجھے خدا دیدے

 یہ ممکنات سے ہے سب تجھے خدا دیدے

اگر تو صرف محمد کا واسطہ دیدے


تو اپنے منھ سے نہ کچھ مانگ مانگنے والے

کریم ہے ترا آقا نہ جانے کیا دیدے


الگ ہی رکھ مجھے دربار داریوں سے خدا

فقط رسائی دربار مصطفیٰ دیدے


نہیں ہے اور کوئی ذات مصطفیٰ کے سوا

جمال کی جو مہ و مہر کو ضیا دیدے


پہنچ کے طیبہ میں دل کو لگا ہے یہ دھڑکا

نہ اذن رخصتی محبوب کبریا دیدے


جمال صاحب خضری کو دیکھنا ہے مجھے

حجاب نور نگاہوں کو راستہ دیدے


الہی سخت بہت ہے صراط عشق نبی

کوئی رفیق سفر منزل آشنا دیدے


ہر اک نصیب میں لکھی نہیں ہے یہ نعمت

ہے عشق سرور عالم جسے خدا دیدے


بدل دے ایسے الہی مرے نقوش حیات

زمین دل کو محمد کا نقش پا دیدے


نظر کے سامنے سر کار جلوہ فرما ہیں

اجل نہ ایسے میں آکر کہیں صدا دیدے


اس کو کہئے عطا و کرم کا اک پیکر

جو اپنے خون کے پیاسے کو بھی ردا دیدے


” ادیب” ناز ہو اس کو نہ کیسے قسمت پر

نبی جسے لب اعجاز سے دعا دیدے

  _______________

وجہ نظام کن فکاں حاصل کا ئنات ہے

 وجہ نظام کن فکاں حاصل کا ئنات ہے

باعث ناز کبریا میرے نبی کی ذات ہے


طیبہ کا منظر حسیں زیب تصورات ہے

ذوق نگاه دیدہ ور غرق تجلیات ہے


آپ ہیں مخزن کمال آپ کی ذات بے مثال

یوں تو بشر ہیں سب مگر آپ کی اور بات ہے


جس نے مٹا کے رکھد یا فرق بلند و پست کا

جنبش چشم مصطفیٰ حاصل معجزات ہے


ظلمت و نور پر انھیں بخشا خدا نے اختیار

دن کو کہیں تو دن ہے وہ رات کہیں تو رات ہے


اپنا وجود بے ثبات ان سے وجود کا ئنات

اپنی حیات ہے عدم ان کا عدم حیات ہے


کھیل نہیں ہے دیکھنا جلوۂ ذات مصطفیٰ

ذوق نگاہ سے عیاں عجز مشاہدات ہے


یاس کی لذتیں کبھی آس کی جنتیں کبھی

یا د رسول میں یہ دل مرکز کیفیات ہے


چشم کرم کا واسطہ زحمت یک نظر حضور

میرا دل تباہ بھی قابل التفات ہے


جذبۂ عشق مصطفیٰ آ گیا کام اے ادیب”

ور نہ غم حیات سے کس کو ملی نجات ہے

 _______________


Top Categories