madaarimedia

سرور دو عالم کا لو وہ آستاں آیا

 سرور دو عالم کا لو وہ آستاں آیا

ہوش تاب نظّارہ وقت امتحاں آیا


راز عظمتِ انساں کھل گیا فرشتوں پر

زیر پائے آقا جب اوج لا مکاں آیا


وہ تو خالق کل ہے بھیجتا کہیں لیکن

شکر ہے کہ ہم ہی میں وجہ کن فکاں آیا


خلوتوں کی باتیں ہیں یہ تو بس خدا جانے

کس نے میزبانی کی کون مہماں آیا


زندگی کا مقصد ہے سیر وادئی بطحی

ایک کارواں گزرا ایک کارواں آیا


جب نظر مصیبت میں اٹھ گئی سوئے طیبہ

جوش پر وہیں ان کا لطف بیکراں آیا


رحمت الہی بھی جھوم اٹھی قیامت میں

جب ادیب” نعتوں کا لیکے ارمغان آیا

 _______________


نہ کوثر نہ جنت کا در ڈھونڈتی ہے

 نہ کوثر نہ جنت کا در ڈھونڈتی ہے

محمد کو میری نظر ڈھونڈتی ہے


سکوں چاہتی ہے تو چشم فلک بھی

کف پائے خیر البشر ڈھونڈتی ہے


خبر دیکھیے کیا مدینے سے آئے

دعا آج اپنا اثر ڈھونڈتی ہے


بصد آرزو اب مری شام فرقت

جو طیبہ میں ہو وہ سحر ڈھونڈتی ہے


غلامئی شاہِ دو عالم جہاں میں

بلال حزیں کا جگر ڈھونڈتی ہے


بڑھانے کو تو قیر انسانیت کی

رسالت لباس بشر ڈھونڈتی ہے


جگہ پائیں جو دامنِ مصطفیٰ میں

مری آنکھ ایسے گہر ڈھونڈتی ہے


ادیب ” خطا کار کو روز محشر

شفیع الوری کی نظر ڈھونڈتی ہے

 _______________


یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی

 یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی

تجلیات سرمدی یہاں عیاں گلی گلی

نہ ڈھونڈھ بن کے اجنبی در رسول ہاشمی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


جو ذرے گرد راہ ہیں مثال مہر و ماہ ہیں

وہ جلوے بے پناہ ہیں ہیں جبرئیل حیرتی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہ ڈالیاں کھجور کی ہوں جیسے نخل طور کی

شعاعیں جن کے نور کی بکھیرتی ہیں روشنی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہ موج سلسبیل ہے وہ باب جبرئیل ہے

ہر ایک شئے جمیل ہے یہیں ہے کیاری خلد کی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


سماں بقیع پاک کا وہ ہے مزار عائشہ

ادھر حسن سا مہ لقا ادھر نبی کی لاڈلی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہیں ہے صدق جلوہ گر یہیں عدالت عمر

یہیں غنی سا اہلِ زریہیں ہے فقر حیدری

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہیں سے میرے محترم ہے قبلتین کچھ قدم

جہاں سے جانب حرم تھا مر گیا رخ نبی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی


یہ مسجد رسول ہے یہیں در قبول ہے

وہ حجرۂ بتول ہے جو خلد ہے ادیب” کی

یہ ہے مدینۃ النبی یہ ہے مدینۃ النبی

 _______________


اے باد صبا ہو جو مدینے میں حضوری

 اے باد صبا ہو جو مدینے میں حضوری

کہنا مرے سرکار سے حال غم دوری


دیدار کی حسرت اگر ہو پائی نہ پوری

حالِ دلِ بیتاب کو ہوگی نہ صبوری


ہو اور فزوں اور فزوں شوق حضوری

حسرت وہی حسرت ہے جو ہو پائے نہ پوری


اے رحمت عالم تری اس شان کے صدقے

پھیلائے ہیں دامن سبھی ناری ہوں کہ نوری


آجائیں دم نزع جو بالیں پہ محمد

ہو جائے مکمل جو کہانی ہے ادھوری


بس ایک ترے دم سے مجھے جذب تصور

ہو جائے گی حاصل در احمد پہ حضوری


کرنے کے لئے ذکر شفاعت کا زباں سے

ہے اشک ندامت سے وضو کر نا ضروری


جب بعد اجل روح کے ضامن ہیں محمد

پھر کیا ہے ادیب” آپ کو یہ دَور عبوری

 _______________


جب سکوں ڈھونڈھنے بیکس کی نظر جاتی ہے

 جب سکوں ڈھونڈھنے بیکس کی نظر جاتی ہے

دامنِ رحمت عالم پہ ٹھہر جاتی ہے


پڑتے ہی نقشِ کفِ پائے محمد پہ نظر

آئینے کی طرح تقدیر نکھر جاتی ہے


شعلے برساتا ہے جب ظلم و ستم کا سورج

زلف سرکار دو عالم پہ بکھر جاتی ہے


کیوں مچلتے ہو در پاک نبی سے پہلے

آنسوؤ! آبروئے دیدۂ تر جاتی ہے


محو ذکر شہ دیں دیکھ کے دیوانوں کو

گردش وقت دبے پاؤں گذر جاتی ہے


پڑتے ہی روضۂ آقا کے منارے پہ نظر

رفعت چرخ نگاہوں سے اتر جاتی ہے


ہجر طیبہ میں تڑپتا ہے ادیب” خستہ

چھوڑ کر باد صبا اس کو کدھر جاتی ہے

 _______________


مقصد جز و کل مرضئ کبریا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا

 مقصد جز و کل مرضئ کبریا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا

ختم جس پر نبوت کا ہے سلسلہ آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


موم جس نے کیا سختی و سنگ کو دور جس نے کیا کفر کے زنگ کو

جس نے آئینۂ دل پہ کی ہے جلا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


امن عالم کا ہیں آپ ہی تو سبب آپ نے کی ہے تکمیل منشائے رب

کہہ اٹھا خود خدا جس پہ صل علیٰ آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


وہ ضعیفہ جو دیتی تھی کانٹے بچھا آپ اس کی عیادت کریں مرحبا

جس نے کی حسن اخلاق کی انتہا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


یاد ہے ارض طائف کا وہ واقعہ پتھروں سے تھے زخمی ہوئے دست و پا

نکلی ایسے میں جس کے لبوں سے دعا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


کہکے دونوں کو باہم لباس وفا دیکے انسان کو حکم مہر و عطا

جس نے عورت کو جینے کا حق دے دیا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


بھینی بھینی محبت کی خوشبو لئے ہم غریبوں کی آنکھوں میں آنسو لئے

چومتی ہے قدم جس کے باد صبا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


جس سے علم علی او ں اور حیائے غنی عظمت عدل جس سے عمر کو ملی

جس پہ قربان صدیق سا با وفا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا


کیوں نہ صدقے ادیب ” اس پہ ہوں جان و تن خود سیئے ہاتھ سے جو پھٹا پیرہن

تا جدار عرب مالک دوسرا آپ کی ذات ہے یا حبیب خدا

 _______________


فخر نوح و فخر آدم سرور کونین ہیں

 فخر نوح و فخر آدم سرور کونین ہیں

وجہ تخلیق دو عالم سرور کونین ہیں


حضرت آدم سے عیسیٰ تک جو آئے انبیاء

سب مؤخر ہیں مقدم سرور کونین ہیں


خشت عصیاں پر جو بر سے بن کے رحمت کی گھٹا

وہ ترے گیسوئے برہم سرور کونین ہیں


پوچھئے تو یہ بتائیں گے جناب جبرئیل

دونوں عالم میں معظم سرور کونین ہیں


آسمانوں کے فرشتے ہوں کہ ہوں جن و بشر

سب کے سردر پہ ترے خم سرور کونین ہیں


گنبد خضری پہ اشکوں کے گہر قرباں کریں

چاہتے یہ دیدۂ نم سرور کونین ہیں


جسم کا سایہ نہ ہونے سے یہ ثابت ہو گیا

پیکر نورِ مجسم سرور کونین ہیں


کیوں نہ ہوں حاصل ہمیں دونوں جہاں کی نعمتیں

جب غلاموں میں ترے ہم سرور کونین ہیں


آپ جو چاہیں تو مل جائے ہر اک دکھ سے نجات

ایک دل اور سیکڑوں غم سرور کونین ہیں


پائے گا آرام طیبہ کی فضاؤں میں ادیب”

اس کے زخم دل کا مرہم سرور کونین ہیں

 _______________


ہے سجائی گی بزم عالم آگئے تاجدار دو عالم

 ہے سجائی گی بزم عالم آگئے تاجدار دو عالم

پیکر نور خلق مجسم آگئے تاجدار دو عالم


دست قدرت کی تخلیق اول آئی دنیا میں ہو کر مشّکل

ہم موخر کہیں یا مقدم آگئے تاجدارِ دو عالم


ہے جبینِ ستم پر پسینہ اور شیاطیں کا ہے چاک سینہ

آرہی ہے یہ آواز پیہم آگئے تاجدار دو عالم


اٹھ نہ پائیگا اب جہل کا سر زندہ درگور ہوگی نہ دختر

اب نہ ترسے گی پھولوں کو شبنم آگئے تاجدار دو عالم


ارض مکہ ہے جنت بداماں گرم وادی بنی شب نمستاں

ہو گئی سرد نار جہنم آ گئے تاجدار دو عالم


بڑھ گئی فقر وفاقے کی عزت جاگ اٹھی غریبوں کی قسمت

صبح عشرت بنی ہر شب غم آگئے تاجدار دو عالم


اے ادیب اپنی نذر عقیدت لے کے جانا ہے پیش رسالت

غنچہ نعت کرلے منظم آگئے تاجدار دو عالم

 _______________


اپنا تو آسرا فقط روز حساب ایک ہے

 اپنا تو آسرا فقط روز حساب ایک ہے

کوئی سوال کیجئے سب کا جواب ایک ہے


والشمس والضحی وہی معنی ھل اتی وہی

کس نے کہا حضور کا میرے خطاب ایک ہے


کون ہے ایسا جو نہیں عشق رسول میں مگن

سیر ہے بزم میکدہ جام شراب ایک ہے


ان پہ درود اور سلام بھیجتے رہئے صبح و شام

منزل کا ئنات میں راہ ثواب ایک ہے


اپنا سا ان کو مان کے حکم سے ان کے انحراف

منکر عظمت نبی وجہ عتاب ایک ہے


وحدت ذات كبر یا ذکر جمال مصطفیٰ

باب کتاب ہیں بہت اصل کتاب ایک ہے


جن کو بنا کے انبیاء بھیجا خدا نے اے ادیب”

سب ہی ہیں محترم مگر عالی جناب ایک ہے

 _______________


اپنا وہ اعجاز مجھ کو بھی دکھا دو مصطفیٰ

 اپنا وہ اعجاز مجھ کو بھی دکھا دو مصطفیٰ

میں بھی پتھر ہوں مجھے کلمہ پڑھا دو مصطفیٰ


یہ تو میں کہتا نہیں تم مجھ کو کیا دو مصطفیٰ

ہاں مگر اتنا مجھے اپنا بتا دو مصطفیٰ


مردہ دل لوگوں کو جس نے بخش دی تازہ حیات

وہ حدیث زندگی کیا ہے سنادو مصطفیٰ


ہیں تمہارے ہاتھ میں سارے خزانے غیب کے

تم جو چاہو فیض کے دریا بہا دو مصطفیٰ


ہر طرف شور تلاطم ہر طرف موج بلا

میری کشتی کو کنارے پر لگا دو مصطفیٰ


ہو نہ جاؤں زندگانی کی کشاکش کا شکار

نا امیدی میں گھرا ہوں حوصلہ دو مصطفیٰ


اس پہ بھی ہو جائے شاید رحمت حق کا نزول

کنج دل کو وسعت غار حرا دومصطفی


سر بلندی ملتی ہے پتھر شکم پر باندھ کر

شان سے غربت میں جینے کی ادا دو مصطفیٰ


نور خضرا کی طرف ہے تک رہا کب سے ادیب”

شمع الفت اس کے سینے میں جگادو مصطفیٰ

 _______________


Top Categories