madaarimedia

نہیں ہے یوں تو کسی کا جواب ناممکن

 نہیں ہے یوں تو کسی کا جواب ناممکن

مگر جواب رسالت مآب نا ممکن


اٹھائیں آپ جو انگشت پاک سوئے فلک

دو نیم ہونا دل ماہتاب ناممکن


حضور ہی تھے جو یہ منزلیں گزار گئے

وہ ذکر و فکر وہ عہد شباب ناممکن


یہ جان کر کہ رضائے نبی ہے مرضئ حق

نہ ابھرے ڈوبا ہوا آفتاب نا ممکن


کوئی بھی سرور عالم کا چاہنے والا

پھرے جہاں میں بحالِ خراب ناممکن


بہ یک نگاہ جو لائے تھے سرور عالم

اب آئے ایسا کوئی انقلاب نا ممکن


لئے ہے گوشۂ دامان مصطفیٰ سر پر”

ادیب اور غم روز حساب ناممکن

 _______________


ہے اگر تو میری فغان شب تو نہ بیٹھ پردۂ راز میں

 ہے اگر تو میری فغان شب تو نہ بیٹھ پردۂ راز میں

کبھی آ دیار حجاز میں کبھی جا دیار حجاز میں


ہے ہر ایک سمت سکوت شب ہے زباں پہ حمد و ثنائے رب

ذرا دیکھئے تو یہ کون ہے جو کھڑا ہوا ہے نماز میں


یہی ایک خوف سدا رہا جو میں آہ لب پہ نہ لا سکا

کہ نہ دیکھ لے کوئی جھانک کے تجھے میرے دل کے گداز میں


ہے گواہ عرصۂ لامکاں ہمیں بھولے شافع عاصیاں

نہ تو آکے خلوت ناز سے نہ تو جا کے خلوت ناز میں


ہوا دور دل سے ہر ایک غم جو بکھر گئی ہے بصد کرم

تو سمٹ کے آگئے دو جہاں اسی ایک زلف دراز میں


کبھی ضرب عشق اگر پڑی تو بشکل صورتِ اذاں اٹھی

یہ صدائے سوز بلال ہے جو نہاں ہے پردۂ ساز میں


نہ ہو کیوں مدینۂ مصطفیٰ مرے جذب شوق کی انتہا

کہ وہی حقیقت اصل ہے جو ہے اس جہانِ حجاز میں


نہیں کم ہے یہ بھی مجھے صلہ جو در رسول سے ہے ملا

کہ مری غلامی کی ہر ادا ہے نگاہ بندہ نواز میں


ہے ادیب ” قسمت نارسا مگر اے درشہ انبیاء

تو نہ جانے کب سے بسا ہوا ہے مری جبینِ نیاز میں

 _______________


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن بار جن سے آس ہے مجھے

 آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن بار جن سے آس ہے مجھے

چاند ستارے کرتے نچھاور ہیں موتی کی لڑیاں

رہ رہ کے آکاش سے چھوٹیں نورانی پھلجھڑیاں

دور ہوئے ساری دنیا سے ظلمت کے آثار


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن بار جن سے آس ہے مجھے


دکھ ساگر کی برہم موجیں جب آنکھیں دکھلائیں

آ آ کے طیبہ سے ہوائیں کانوں میں کہہ جائی

ڈوبنے والوں مت گھبراؤ ہو گا بیڑا پار


آئے وہ میرے سر کار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


شرم سے سرمایہ داری کا سر نہیں اٹھ پائیگا

پیٹ پہ پتھر باندھ کے جینا عزت بن جائیگا

فخر کریں غربت کے مارے ناز کریں نادار


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


ہر آنگن میں گونج اٹھے گی خوشیوں کی شہنائی

سارے انساں بن کے رہیں گے اک دن بھائی بھائی

گر کے رہے گی بھید بھاؤ کی یہ اونچی دیوار


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


جن سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے انسانوں کا محسن

جن کی ضرب الا اللہ سے گونج اٹھیں گے اک دن

مکے کے کوچے ہوں یا ہو طائف کا بازار


آئے وہ میرے سر کار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


جو اپنی میٹھی بولی سے کانوں میں رس گھولیں

وہ جن کے لیہائے مبارک راز کے دفتر کھولیں

ہاتھ کا تکیہ خاک کا بستر عالم کے سردار


آئے وہ میرے سر کار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے


جن کی گود سے شیر خدا نے شانِ شجاعت پائی

جن سے عدل عمر نے اور عثماں نے سخاوت پائی

حضرت صدیق اکبر تھے جن کے یار غار


آئے وہ میرے سرکار سارے جگ کے تارن ہار جن سے آس ہے مجھے

 _______________


اسی امید میں اپنی بسر اب زندگی ہوگی

 اسی امید میں اپنی بسر اب زندگی ہوگی

کبھی تو وہ بلائیں گے کبھی تو حاضری ہوگی


مری آہیں صبا لیکر مدینے جب گئی ہوگی

تو شانِ رحمۃ للعالمینی جھوم اٹھی ہوگی


رخ و الشمس کی توصیف پوچھو خالق کل سے

کہوں گا میں تو توہین جمال یوسفی ہوگی


یقیں کب تھا یہ باطل کو اندھیرے مٹ ہی جائیں گے

عیاں فاران کی چوٹی سے ایسی روشنی ہوگی


انہیں آخر میں یوں بھیجا کہ تھا علم مشیت میں

یہ دنیا ایک دن محروم امن و آشتی ہوگی


سدا وحشت رہے پابند صحرا کیا ضروری ہے

جنوں اب ہو گا میرا اور مدینے کی گلی ہوگی


کھلیں گے عاصیوں پر بھی دریچے باغ رضواں کے

مشیت ناز بردار رسول ہاشمی ہوگی


جلو میں کاروانِ اہلِ الفت لیکے آئیں گے

قیامت میں عجب شانِ علامانِ نبی ہوگی


یہ کہکر نکلی قید جسم سے روح ادیب ” آخر

فضائے ارض طیبہ میرا رستہ دیکھتی ہوگی

 _______________


کاش ہستی کا وہی آخری لمحہ ہوتا

 کاش ہستی کا وہی آخری لمحہ ہوتا

سامنے آنکھوں کے جب گنبد خضری ہوتا


لوٹتی گردش ایام جو پیچھے کی طرف

کیا تعجب ہے کہ نظارۂ آقا ہوتا


دانت بے دیکھے اویس قرنی نے توڑے

جانے کیا ہوتا اگر آنکھوں سے دیکھا ہوتا


نور کے ساتھ کثافت کا تصور ہی غلط

نور آقا نہ اگر ہوتے تو سایہ ہوتا


آپ کا حکم اگر ہوتا تو کنکریاں کیا

لب انگشتِ ابو جہل پہ کلمہ ہوتا


میرے آقا نے تری بات بنادی ورنہ

آج دنیا ترا بگڑا ہوا نقشہ ہوتا


ہم اگر مانتے آقا کے اصولِ زرّیں

اپنی تاریخ کا ہر باب سنہرا ہوتا


اب مسیحائی کو آتی نہیں طیبہ سے نسیم

اس سے اچھا تھا کہ بیمار نہ اچھا ہوتا


ان کا مداح جلے نار جہنم میں ادیب

کیسے یہ شافع محشر کو گوارا ہوتا

 _______________


عظمت گنبد خضری ہے کہ اللہ اللہ

 عظمت گنبد خضری ہے کہ اللہ اللہ

عرش بھی جھک کے یہ کہتا ہے کہ اللہ اللہ


دیکھ کے اس رخ والشمس پہ زلف والیل

بس یہی منھ سے نکلتا ہے کہ اللہ اللہ


انبیاء اور رسل جس کے براتی ہونگے

حشر کے روز کا دولہا ہے کہ اللہ اللہ


چاند تاروں کی جبیں جس نے منور کردی

آپ کا نقش کف پا ہے کہ اللہ اللہ


ترا مولی بھی ہوا تیری رضا کا طالب

تو بھی کس شان کا بندہ ہے کہ اللہ اللہ


تشنہ لب دیکھ کے امت کو ترا ابر کرم

اس طرح ٹوٹ کے برسا ہے کہ اللہ اللہ


غار کی رات ہے زانو پہ سرختم رسل

آج صدیق کا رتبہ ہے کہ اللہ اللہ


ساریہ کو جو ہلاکت سے بچا سکتا ہے

ابن خطاب کا خطبہ ہے کہ اللہ اللہ


تیرے اشعار میں ہے نسبت حسان ادیب”

شعر گوئی کا سلیقہ ہے کہ اللہ اللہ

 _______________


کوئی راہی جو مدینے کی طرف جاتا ہے

 کوئی راہی جو مدینے کی طرف جاتا ہے

ہوک سی اٹھتی ہے اور دل مرا بھر آتا ہے


ہجر طیبہ میں گزر جاتی ہیں یوں بھی راتیں

دل کو سمجھاتا ہوں میں دل مجھے سمجھاتا ہے


حشر میں سب کی نگاہیں ہیں نکو کاروں پر

دیکھئے کون بروں کو یہاں اپناتا ہے


اب تو آجا ئیے آقا کہ چراغ ہستی

نا امیدی کی ہواؤں سے بجھا جاتا ہے


دیکھئے آقا یہ جاتا ہے جو سوئے دوزخ

ہے گنہگار مگر آپ کا کہلاتا ہے


ناز کر اپنے مقدر پہ زمین طیبہ

تیرے ہر ذرے سے خورشید بھی شرماتا ہے


جانے کس منزل الفت میں ہے دل میرا ادیب”

نام لیتا ہوں نبی کا تو سکوں پاتا ہے

 _______________


راز دار حریم خدا آپ ہیں

 راز دار حریم خدا آپ ہیں

فہم و ادراک سے ماوریٰ آپ ہیں


آرزو التجاء مدعا آپ ہیں

میرے سب کچھ حبیب خدا آپ ہیں


ہر نبی اپنی امت کا سردار ہے

اور سردار کل انبیاء آپ ہیں


بحر ہستی میں کیا موج و طوفاں کا ڈر

میری کشتی کے جب ناخدا آپ ہیں


مشکلیں زندگی میں بہت ہیں مگر

دل قوی ہے کہ مشکل کشا آپ ہیں


مختصر ہے مرا قصۂ زندگی

ابتدا آپ ہیں انتہا آپ ہیں


زاہدوں کو ہیں اعمال کے آسرے

اور میرا فقط آسرا آپ ہیں


ڈوبتے کی نگاہوں سے دیکھے کوئی

نا خدا با خدا جانے کیا آپ ہیں


بیم محشر ہو کیوں آپ کو اے ادیب”

جب کہ مداح خیر الوریٰ آپ ہیں

 _______________


آئی یاد مدینہ آئی

 آئی یاد مدینہ آئی

لائی پیام راحت لائی


بستی ہے جس میں یاد محمد

اس دل پر قربان خدائی


منزل طیب مد نظر ہے

وحشت دل اب راه پہ آئی


رسوا ہوا ہوں عشق نبی میں

مجھ کو مبارک یہ رسوائی


جرم نبی ہے پھر سے غریبی

فاخر غربت تیری دہائی


گنبد خضری بس نہیں ورنہ

کس کو گوارا تیری جدائی


یوں ہی کئے جا ذکر محمد

سانس کا کیا ہے آئی نہ آئی


ساتھ ادیب ” ہے یاد محمد

مجھ کو نہیں خوف تنہائی

 _______________


آنکھوں سے مری آنسو طیبہ میں جدا ہو نگے

 آنکھوں سے مری آنسو طیبہ میں جدا ہو نگے

مہرومہ وانجم سے تابش میں سوا ہو نگے


جوش آئے گا رحمت کو در خلد کے واہونگے

سجدے میں محمد جب مصروف دعا ہو نگے


جب ادنی غلام ان کے کونین کے مالک ہیں

سرکار مدینہ خود کیا جانیے کیا ہونگے


ٹوٹے ہوئے دل والے محبوب محمد ہیں

محبوب محمد ہی مقبول خدا ہو نگے


آئے گا جوانی پر یہ شوق جبیں سائی

سجدے در احمد پر جب جا کے ادا ہو نگے


اللہ مری حالت سرکار سے کہہ دینا

احسان ترے مجھ پر اے باد صبا ہو نگے


اچھی نہیں اتنی بھی آزادہ روی تیری

اے جرات رندانہ سر کار خفا ہو نگے


مانگیں گے ادیب ” اس دن خود ان سے انھیں کو ہم

سرکار مدینہ جب مائل بہ عطا ہو نگے

 _______________


Top Categories