madaarimedia

مقصد فطرت نور مجسم آئے جہاں میں سرور عالم

 مقصد فطرت نور مجسم آئے جہاں میں سرور عالم

بن کے حریم قدس کا محرم آئے جہاں میں سرور عالم


دور ہوا باطل کا اندھیرا پھیلا وہ پھیلا حق کا اجالا

چم کا وہ چمکا نیر اعظم آئے جہاں میں سرور عالم


چل چل کے مخمور ہوائیں ہنس ہنس کے مسرور فضائیں

دیتی ہیں آواز یہ پیہم آئے جہاں میں سرور عالم


جہل کے تن میں روح جو پھڑ کی بغض و حسد کی چھاتی دھڑکی

جور و جفا کا گھٹنے لگا دم آئے جہاں میں سرور عالم


اٹّھے رخ عرفان سے پردے رقص میں آئے دین کے جلوے

کفر کی محفل ہو گئی برہم آئے جہاں میں سرور عالم


ناچو خوشی میں اٹھ کے غریبو! گاؤ ہنسو اللہ کے پیارو

کرتے ہو کیوں تقدیر کا ماتم آئے جہاں میں سرور عالم


رحمت حق کے پیکر خاتم لائے ہیں تسکین کا مرہم

درد کے مارو! اب نہ کرو غم آئے جہاں میں سرور عالم


جب ہوئی دنیا جہل کی خوگر جب ہوئے گم اخلاق کے جوہر

جب ہوئی نبض ہستی مدھم آئے جہاں میں سرور عالم


آج کے دن یہ رونا کیسا اشکوں سے منھ دھونا کیسا

ہوش میں آ اے دیدۂ پر غم آئے جہاں میں سرورِ عالم


جاگی ادیب ” انسان کی قسمت خلق مجسم پیکر رحمت

بن کے وقار حضرت آدم آئے جہاں میں سرور عالم

 _______________


ہم ہجر کی کالی راتوں میں اکثر یہی سوچا کرتے ہیں

 ہم ہجر کی کالی راتوں میں اکثر یہی سوچا کرتے ہیں

کچھ ایسے بھی ہیں جو شام و سحر نظارۂ طیبہ کرتے ہیں


معلوم نہیں کن ذروں کو قدموں سے نواز ا ہو تم نے

ہم اس لئے خاک طیبہ کے ہر ذرے پہ سجدہ کرتے ہیں


دیوانۂ عشق ختم رسل شاید یہ تجھے معلوم نہیں

اس طرح تڑپنے سے تیرے سر کار بھی تڑپا کرتے ہیں


کیا جانے حیات دو روزہ پھر اتنی بھی مہلت دے کہ نہ دے

ہم آج یہیں سے تجھ کو سلام اے گنبد خضری کرتے ہیں


جب گنبد خضریٰ دیکھا تھا کیوں مر نہ گئے کیوں مٹ نہ گئے

ہم لوٹ کے آنے والوں سے آقا یہی پوچھا کرتے ہیں


دیوانو! اٹھو کچھ عرض کر کرو یہ وقت نہیں چپ رہنے کا

سنتے ہیں کہ اپنی محفل میں سرکار خود آیا کرتے ہیں


وہ بزم جمی اور وہ آئی آواز “ادیب ” خستہ کی

عشاق نبی جس کی نعتیں سنتے ہیں تو رویا کرتے ہیں

 _______________


بروز حشر جب دیں گے حساب اول سے آخر تک

 بروز حشر جب دیں گے حساب اول سے آخر تک

غلام ان کے رہیں گے کامیاب اول سے آخر تک


یہ سمجھے جب پڑھا ہر ایک باب اول سے آخر تک

ہے مدح مصطفی ام الکتاب اول سے آخر تک


پئے انسانیت معیارِ کردار و عمل ٹھہرا

رسول اللہ کا عہد شباب اول سے آخر تک


کسی شعبے کو دیکھو کار گاہ زندگانی میں

حیات مصطفیٰ ہے لا جواب اول سے آخر تک


نگاہ عارفاں خیرہ ہے اب تک کیا قیامت ہو

جو ذات مصطفیٰ الٹے نقاب اول سے آخر تک


خدارا اک نظر پھیلا ہوا ہے میری دنیا میں

اندھیرا اے حرا کے آفتاب اول سے آخر تک


مہد سے تالحد ان کی غلامی مانگ لی میں نے

ہے یکتا میر احسن انتخاب اول سے آخر تک


نگاه سرور کونین کا مرہون منت ہے

یہ دنیائے عمل کا انقلاب اول سے آخر تک


حضور آئے تو ذوق جلوہ جا گا لیکے انگڑائی

تجلی تھی حجاب اندر حجاب اول سے آخر تک


نہیں تحریر اس میں نام احمد کے سوا کچھ بھی

ہے سادہ میری ہستی کی کتاب اول سے آخر تک


سرِ بالیں تھے حضرت اور تڑپ کر جان دی میں نے

حقیقت کاش بن جائے یہ خواب اول سے آخر تک


اجازت ہو تو اے سرکار حاضر ہو کے خدمت میں

سنائیں اپنا ہم حال خراب اول سے آخر تک


بجز مدح نبی جتنے عمل تھے رائیگاں نکلے

“ادیب” اپنا کیا جب احتساب اول سے آخر تک

 _______________


وہ حامی ہے جو سید مکی مدنی ہے

وہ حامی ہے جو سید مکی مدنی ہے

نازاں ہیں گنہگار کہ اب بات بنی ہے


کونین پہ انوار کی سایہ فگنی ہے

وہ آتا ہے جس کے لئے دنیا یہ سجی ہے


غلطاں صدف نور مین در عدلی ہے

دندان مبارک ہیں کہ ہیرے کی کنی ہے


سرکار جو گزریں تو مہک جائیں وہ گلیاں

کیا گلبدنی گلدنی گلدنی ہے


نادم رخ زیبا سے جمالِ گل رنگیں

شرمنده قد پاک سے سرو چمنی ہے


آقا کے پینے سے معطر ہوئیں نسلیں

تاثیر کہاں تجھ میں یہ مشک ختنی ہے


ٹوٹی سی چٹائی پہ ہیں قونین کے مالک

اور دوش مبارک پر روائے یمنی ہے


رس گھول دیا تلخئ حالات میں جس نے

اعجاز رسالت ہے کہ شیریں سخنی ہے


جبریل بھی ہیں غاشیہ برداری پہ نازاں

کیا رتبۂ عالی ترا اللہ غنی ہے


بے اصل نظر آتی ہے سورج کی تمازت

اے گنبد خضریٰ تری وہ چھاؤں گھنی ہے


آغوشِ رسالت میں جگہ پائی ہے جس نے

یہ سوچئے وہ کتنا مقدر کا دھنی ہے


ہے دیدۂ و نادیدہ سبھی ان کے فدائی

رومی حبشی فارسی کوئی یمنی ہے


آئے جو ترس ساقی مری تشنہ لبی پر

وہ دیدے جو سرکار کی جالی سے چھنی ہے


پایا ہے ادیب ” آقا سے مدحت کا یہ انعام

سر پر مرے اک چادر رحمت سی تنی ہے

 _______________


سرگوشیاں ہیں باہم محراب میں منبر میں

 سرگوشیاں ہیں باہم محراب میں منبر میں

سرکار مدینہ ہیں صدیق کے پیکر میں


شهکار رسالت ہے ایثار کا وہ پیکر

اللہ نبی کو بس چھوڑ آیا ہو جو گھر میں


نا فہم نہ سمجھیں گے ہٹ دھرم نہ مانیں گے

کیا منصب فاروقی ہے چشم پیمبر میں


انوار کی دنیا میں وہ کیسا غنی ہوگا

لکھے ہوئے ہوں جس کے دونور مقدر میں


اعجاز دکھاتے ہیں جب ختم رسل اپنا

زور اسد اللہی آجاتا ہے حیدر میں


بچھڑے ہوئے مدت کے صدیق و عمر دونوں

آسودہ نظر آئے آغوش پیمبر میں


آقا کی غلامی کا انعام کوئی دیکھے

کونین کی نعمت ہے دامان ابوذر میں


سلمان و بلال آقا سرشار ہوئے جس سے

اک بوند اسی مئے کی دیدیجیے ساغر میں


یہ کس نے دہائی دی ساقئ مدینہ کی

اٹھی ہے سرِ محشر اک موج سی کوثر میں


مایوس ادیب ” اتنا ہونا ہے ترا بے جا

اصحاب نبی ہو نگے حامی ترے محشر میں

 _______________


تری ذات سے منور یہ فلک ہے یہ زمیں ہے

 تری ذات سے منور یہ فلک ہے یہ زمیں ہے

تو ہی شاہکار قدرت تو ہی نور اولیں ہے


تو کبھی ہے لا مکاں میں کبھی بزم بیکساں میں

کبھی عرشِ حق ہے مسند کبھی بوریہ نشیں ہے


ترے نور نے مٹائے رہ وہم کے اندھیرے

ترے نور سے ہی روشن مری منزل یقیں ہے


رخ پاک کی تجلی ہے مکان و لا مکاں میں

کیئے دو جہاں معطر تری زلف عنبریں ہے


یہ کرم کی انتہا ہے کہ اماں عدو کو بخشی

تری ہر ادا نرالی ترا ہر عمل حسیں ہے


سر حشر عاصیوں کا تو ہی آسرا ہے ورنہ

وہاں کام آنے والا کوئی دوسرا نہیں ہے


دم نزع کی کشاکش کریں آپ آکے آساں

یہی انتظار آقا مجھے وقت واپسیں ہے


جو لحد میں آئیں گے وہ تو ادیب ” میں کہوں گا

یہ وہی ہیں جن کی الفت مری روح میں مکیں ہے

 _______________


اکرام کم نہیں ہیں یہ سر کار آپ کے

 اکرام کم نہیں ہیں یہ سر کار آپ کے

آزاد ہیں غموں سے گرفتار آپ کے


محروم دید آنکھوں میں اشکوں کے کچھ گہر

لائے ہیں نظر تشنۂ دیدار آپکے


اے آرزوئے ہر دل بیتاب آئیے

سب منتظر ہیں حاضر در بار آپ کے


بے مثل بے نظیر ہیں یا سید البشر

روشن اصول سیرت و کردار آپ کے


اب ظلمتوں کا ہونا سکے گا کہیں گزر

پھیلے ہیں کائنات میں انوار آپکے


عرفان کیا عروج مراتب کا ہو سکے

جبریل بھی ہیں غاشیہ بردار آپ کے


کرتے بہ یک نگاہ ہیں ہر اک درد کا علاج

عیسی نفس ہیں آج بھی بیمار آپ کے


کیوں ان کی اقتدیٰ سے ہدایت نہ پائیں ہم

اصحاب میں نمایاں ہیں اطوار آپ کے


کیوں آپ کو ہے فکر و غم حشر ائے ادیب”

جب فخر کائنات ہیں غمخوار آپ کے

 _______________


اے سرور کونین شہنشاہِ دوعالم

 اے سرور کونین شہنشاہِ دوعالم

سر تا بہ قدم پیکر انوار مجسم


مسجود ملائک ہے ترا نور مکرم

کہتی ہے چمکتی ہوئی پیشانئ آدم


مدح شہ لولاک بیاں کیسے کریں ہم

ذکر ان کا سوا فرصت ہستی ہے بہت کم


اللہ رے شیرینئ گفتار کا عالم

نفرت کے شراروں کے لئے پیار کی شبنم


جب ثور میں زانو پہ سرختم رسل تھا

اس وقت کوئی دیکھتا صدیق کا عالم


سرکار دو عالم کی دعاؤں کا ثمر تھا

کہتا ہے زمان جنہیں فاروق معظم


اک درس ہے اس ذات کی بکھری ہوئی سیرت

قرآن کی آیات ہیں کی جس نے منظم


مرہون کرم آج بھی ہے دین انہیں کا

وہ جن کا دوپٹہ بنا اسلام کا پرچم


سب پر ہیں اسی مہر رسالت کی شعائیں

وہ بوذر و سلمان ہوں یا زید بن ارقم


خون اسد اللہی کی گردش ہے رگوں میں

کر سکتے ادیب ” اب بھی ہیں خیبر شکنی ہم

 _______________


اللہ اللہ حضور کی محفل

 اللہ اللہ حضور کی محفل

نور کے لوگ نور کی محفل


آسمانوں پہ بھی سجائی گئی

ان کے جشن ظہور کی محفل


کانپ جاتے ہیں بایزید و جنید

ہے وہ کتنے شعور کی محفل


حشر میں ہونگے ساقئ کوثر

اور شراب طہور کی محفل


جز دیار نبی کہیں بھی نہیں

عاشقوں کے سرور کی محفل


ہو نظر تو دیارِ طیبہ کا

ذرہ ذرہ ہے طور کی محفل


ہے مزین جمال آقا سے

پاس کی بزم دور کی محفل


آمد مصطفیٰ سے اجڑی ادیب”

اہل کبر و غرور کی محفل

 _______________


پھیلا ہوا وہ دامن رحمت تو دیکھیے

 پھیلا ہوا وہ دامن رحمت تو دیکھیے

محشر میں مصطفیٰ کی عنایت تو دیکھیے


شیریں ہے اتنا نام محمد خدا گواہ

پیوست لب سے لب ہیں حلاوت تو دیکھیے


امت کسی نبی کی ہو وہ بخشوا ئینگے

میرے نبی کی شان شفاعت تو دیکھیے


ہیں جتنے انبیاء ورسل سب ہیں مقتدی

اقصیٰ میں مصطفیٰ کی امامت تو دیکھیے


سر اٹھ نہیں رہا ہے کسی تاجدار کا

سرکار دو جہاں کی وجاہت تو دیکھیے


سرکار ہیں قیام میں دنیا ہے محو خواب

خیر الامم کا ذوق عبادت تو دیکھیے


حلقہ بگوش ہو کے گیا جو بھی آ گیا

صلح حدیبیہ کی سیاست تو دیکھیے


دونوں جہان دے کے خریدار ہے خدا

اشک غم رسول کی قیمت تو دیکھیے


ہیں منتظر فرشتے اذان بلال کے

یہ رتبۂ غلام رسالت تو دیکھیے


خیر البشر کے ساتھ میں ہیں افضل البشر

مرکے بھی ہیں قریب رفاقت تو دیکھیے


خود بھوکے خاندان کو پہنچاتے ہیں غذا

فاروق کی یہ شان خلافت تو دیکھیے


سر کار خود ہی گوش برآواز ہیں ادیب”

مداح مصطفیٰ کی یہ قسمت تو دیکھیے

 _______________


Top Categories