madaarimedia

غلام جس کو رسولِ زماں بناتے ہیں

 غلام جس کو رسولِ زماں بناتے ہیں

زمیں بھی ہو تو اسے آسماں بناتے ہیں


پئے دیار نبی کارواں بناتے ہیں

ضعیف ارادوں کو بادل جواں بناتے ہیں


اگر وہ چاہیں تو دیں درد کو سکوں سے بدل

جو خارزاروں کو بھی گلستاں بناتے ہیں


ہے بنتا نقشہ مدینے کے ریگزاروں کا

جنوں میں ہم جو کوئی بھی نشاں بناتے ہیں


وہ ذرے جن کو نوازا تھا پائے آقا نے

زمیں پہ ایک نئی کہکشاں بناتے ہیں


جو پھول بن کے تھے بر سے لب رسالت سے

وہ جملے کتنی حسیں داستاں بناتے ہیں


زباں سے پڑھتے ہیں آقا جو سورہ کوثر

زبان دانوں کو بھی بے زباں بناتے ہیں


زمانہ جس کی بنی کو بگاڑ دیتا ہے

تو اس کو سرور کون و مکاں بناتے ہیں


سبھی ہیں حاضر دربار دیکھنا یہ ہے

حضور کس کو سگ آستاں بناتے ہیں


جہاں ادیب ” تھی آباد کفر کی بستی

حضور مرکز ایماں اسے بناتے ہیں

 _______________


نوری چہرہ روشن آنکھیں ابرود و خمدار کمانیں گیسو گھونگھر والے ہونگے

 نوری چہرہ روشن آنکھیں ابرود و خمدار کمانیں گیسو گھونگھر والے ہونگے

آقا کی یہ شان ہے کافی قبر میں یہ پہچان ہے کافی چاروں سمت اجالے ہونگے


ہو گی قیامت حشر کی گرمی جو شئے ہوگی تپتی ہوگی سب ہی کہیں گے نفسی نفسی

ہم سے سورج کا کیا رشتہ ہم تو اس دن اپنے نبی کا دامن سر پر ڈالے ہونگے


نائب شہ صدیق اکبر اور عمر عثمان و حید ر حسنین و سلمان و ابوذر

ہر پیاسے کی پیاس بجھانے گردکوثر پینے پلانے جمع سبھی متوالے ہونگے


حشر میں ان کی شان یہ ہوگی اور شکلِ احسان یہ ہو گی سب سے بڑی پہچان یہ ہوگی

ساتھ میں ان کے سچے ہونگے کچھ لاوارث بچے ہونگے کچھ گودی کے پالے ہونگے


جب وہ نوازش فرمائیں گے ہم کو مدینے بلوائیں گے اس حالت سے ہم جائیں گے

الجھے الجھے گیسو ہو نگے آنکھوں میں کچھ آنسو ہونگے اور پاؤں میں چھالے ہونگے


بزم دو عالم آج سجی ہے ہر اک بگڑی بات بنی ہے ہر جانب اک دھوم مچی ہے

جھومتی ہیں پر نور فضا ئیں کہہ کے چلی ہیں مست ہوائیں آقا آنے والے ہونگے


ہوگی ادیب ” ان کی جب رحمت تجھ پہ وہ فرمائیں گے شفقت ہائے وہ کیسی ہو گی ساعت

ان کے لبوں پر ہوگا تکلم کھیلتا ہوگا نور تبسم اپنے لبوں پر تالے ہونگے

 _______________


کتنا عجیب وصل و فراق رسول ہے

 کتنا عجیب وصل و فراق رسول ہے

اتنا ہی مختصر بھی ہے جتنا کہ طول ہے


دل میں نہیں جو عکس جمال رسول ہے

آئینہ ہے ضرور مگر نا قبول ہے


مثل اویس رکھتا ہے جو عشق مصطفیٰ

وہ دور بھی رہے تو قریب رسول ہے


خیر الوریٰ کی شان شفاعت تو دیکھیے

ہم عاصیوں پہ رحمت حق کا نزول ہے


دیکھو تو اتباع رسالت کا معجزہ

جو بے اصول تھا وہ بنا با اصول ہے


محنت کا درس دے گئی ہم کو یہ ایک بات

چکی چلانا باعث فخر رسول ہے


مکہ کی راہ بھول کے طیبہ میں آگیا

کتنی حسین کتنی مبارک یہ بھول ہے


کہدو یہ کہکشاں سے مرے پاؤں چوم لے

اب میرے سر پہ پائے رسالت کی دھول ہے


طیبہ بلائیں یا کہ تڑپنے کا حکم دیں

ہر فیصلہ حضور کا مجھ کو قبول ہے


ہے سامنے تو جلوۂ خضری مگر حضور

اب تو نگاہ کو یہ مسافت بھی طول ہے


اپنی زباں سے کاش یہ فرما دیں مصطفیٰ

ہاں یہ ادیب ” بھی مرے قدموں کی دھول ہے

 _______________


سب سنی ان سنی ہو جاتی گزارش میری

 سب سنی ان سنی ہو جاتی گزارش میری

شافع حشرنہ کرتے جو سفارش میری


غم ہستی نہیں مجھ کو غم کونین قبول

وہ رضا مند رہیں ہے یہی خواہش میری


میری مجبوریوں روکونہ مجھے جانے دو

راہ تکتی نہ ہو آقا کی نوازش میری


مجھ کو رسوائیے محشر سے بچا لو آقا

ہو نہ جائے بھرے مجمع میں نمائش میری


آپ کی مدح کا صدقہ ہے رسول اکرم

لوگ کرتے ہیں زمانے میں ستائش میری


آپ اگر چاہیں تو توفیق رسائی دیدیں

ور نہ کیا چیز ہے یہ کوشش و کاوش میری


جھوم کر اٹھے مدینے سے کرم کے بادل

رنگ لائی ہے ادیب ” آنکھوں کی بارش میری

 _______________


کہیں کیا کیسے فیضان حبیب کبریا پایا

 کہیں کیا کیسے فیضان حبیب کبریا پایا

کبھی با واسطہ پایا کبھی بے واسطہ پایا


بڑی مشکل ن سے اپنی جستجو کا منتہا پایا

مدینے کی گلی سے لامکاں کا راستہ پایا


حقیقت میں اسے کہتے ہیں انعامات کی بارش

خدا کو خود ہی فرماتے ہوئے صل علی پایا


عمر جیسا جری بھی ان کو سیدنا پکار اٹھا

بلال مصطفیٰ نے یہ غلامی کا صلہ پایا


ہوئے ہیں ذہن و دل پر منکشف اسرار پنہائی

تفکر نے مرے جب گوشۂ غار حرا پایا


تمنائے حضوری جاگ اٹھی انگڑائیاں لیکر

مدینے کی طرف جاتا جو کوئی قافلہ پایا


تمناؤں کا جمگھٹ تھا مقام ذوالحلیفہ تک

مدینہ جا کے تاب عرضِ غم کو لا پتہ پایا


جو ٹپکے تھے مری آنکھوں سے قطرے ہجر طیبہ میں

انھیں قطروں سے اپنی فرد عصیاں کو دھلا پایا


پس مردن بھی آسودہ ہیں زیر دامنِ رحمت

رسول اللہ نے صدیق جیسا باوفا پایا


گئے ہوں قتل کرنے اور بنیں ہیں ضامن ہستی

تعجب خیز ہے تاریخ میں یہ واقعہ پایا


شب ہجرت سکون قلب کا اللہ رے عالم

علی کو بستر سرکار پر سوتا ہوا پایا


وہیں کونین کی نعمت و ہیں پر قاسم نعمت

مدینے ہی میں جا کر ہم نے جینے کا مزہ پایا


ادیب اپنا لہو دیکر ہیں جس نے پھول برسائے

مثال اس ذات اقدس کی زمانہ کب ہے لا پایا

 _______________


یہ بھی ہے معجزۂ احمد مختار نیا

 یہ بھی ہے معجزۂ احمد مختار نیا

ذکر سو بار کرو لگتا ہے ہر بار نیا


منتظر نور مجسم کے نظر آتے ہیں

پیرہن نور کا پہنے در و دیوار نیا


ظلم کے ہاتھ سے شمشیر جفا چھوٹ گئی

رنگ لائی ترے اخلاق کی تلوار نیا


دشمنوں پر بھی کرم کر کے ستم کے بدلے

آدمیت کو دیا آپ نے کردار نیا


قبر میں آئیں جو آقا تو بچھانا آنکھیں

تیرا انداز ہو دیوانۂ سر کار نیا


مستیاں بانٹتا ہے میکدۂ عشق رسول

خم نیا جام نیا مئے نئی میخارنیا


ان کے جو دامن احساس پہ گزرے نہ گراں

رنگ ایسا ہو کوئی دیدۂ خونبار نیا


کوئی راہی جو حضوری کی تڑپ رکھتا ہو

کیف دے وادئ بطحیٰ بھی کا ہر اک خارنیا


جوڑ تو لیجئے امی لقبی سے رشتہ

رخ بدل ڈالیں گے خود علم کے اسرار نیا


ہے یہاں عظمتِ سرکار کے سکے کا چلن

ڈھونڈ گستاخ رسالت کوئی بازار نیا


منکر عظمت سرکار سے ہشیار ادیب”

روپ بدلے ہیں یہ ایماں کے خریدار نیا

 _______________


نجات انسانیت پائے ہدایت ہو تو ایسی ہو

 نجات انسانیت پائے ہدایت ہو تو ایسی ہو

نبوت ہو تو ایسی ہو رسالت ہو تو ایسی ہو


زباں کھولی تو الفاظ و معنی جھوم جھوم اٹھے

فصاحت ہو تو ایسی ہو بلاغت ہو تو ایسی ہو


جو دب کے صلح کی اس کا اثر معکوس ہی نکلا

سیاست ہو تو ایسی ہو قیادت ہو تو ایسی ہو


مصلے پر ہوں آقا کے کبھی صدیق فرمائیں

فضیلت ہو تو ایسی ہو صداقت ہو تو ایسی ہو


مکیں ہیں گنبد خضری میں صدیق و عمر دونوں

محبت ہو تو ایسی ہو رفاقت ہو تو ایسی ہو


ہیں اوراق کلام اللہ رگیں خونِ عثماں سے

عبادت ہو تو ایسی ہو تلاوت ہو تو ایسی ہو


خدا کے گھر ہوئے پیدا خدا کے گھر میں دم توڑا

ولادت ہو تو ایسی ہو شہادت ہو تو ایسی ہو


نبی کے حکم پر بھی فضل صدیقی کے منکر ہیں

عداوت ہو تو ایسی ہو جہالت ہو تو ایسی ہو


ادیب ” اصحاب کی مدحت سے تجھ کومل گئی شہرت

جو نسبت ہو تو ایسی ہو سعادت ہو تو ایسی ہو

 _______________


پھولوں کو مہک کلیوں کو رنگت نہ ملیگی

 پھولوں کو مہک کلیوں کو رنگت نہ ملیگی

جب تک چمن طیبہ سے نسبت نہ ملیگی


تسکین کی دل کو میرے دولت نہ ملیگی

جب تک در سر کار سے قربت نہ ملیگی


انکار میں اعمال میں جز سیرت آقا

ڈھونڈھے سے بھی ایسی کہیں وحدت نہ ملیگی


سردار عمر سمجھیں بلال حبشی کو

دنیا میں غلاموں کو یہ عزت نہ ملیگی


وہ ظلم سے باز آ گئے صدقے میں نبی کے

جو کہتے تھے مزدور کو اجرت نہ ملیگی


کہتی تھی یہ بیدارئ تقریر علی کی

سو جاؤ کہ پھر یہ شب ہجرت نہ ملیگی


خالی نہ رہے کوئی نفس ذکر نبی سے

موت آئی تو پھر اتنی بھی مہلت نہ ملیگی


اے عظمت سرکار کے منکر یہ سمجھ لے

سرکار نہ چاہیں گے تو جنت نہ ملیگی


مقصود نظر گنبد خضری ہے تو یارب

کیا آنکھوں کو توفیق زیارت نہ ملیگی


مدحت کا نہ جب تک کہ ادیب” آئے سلیقہ

تخئیل کی پرواز کو رفعت نہ ملیگی

 _______________


حضرت یوسف ہیں حیراں حسن صورت دیکھ کر

 حضرت یوسف ہیں حیراں حسن صورت دیکھ کر

محو ہیں قدسی میرے آقا کی سیرت دیکھ کر


طاعت خیر الوریٰ سے زندگی تعبیر ہے

ہم تو یہ سمجھے ہیں قرآں کی عبارت دیکھ کر


کفر کی تاریکیوں پر جیسے بجلی گر پڑی

ہر طرف پھیلا ہوا نور رسالت دیکھ کر


دیدیا امی لقب نے علم و دانش کو فروغ

دہر میں تاریکئ دور جہالت دیکھ کر


جب تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی زندگی

خالق کل نے انھیں بھیجا ضرورت دیکھ کر


خون کے پیاسوں کو جب سرکار نے بخشی ردا

سرکشوں کے سرجھکے یہ شانِ رحمت دیکھ کر


منزل قوسین تک پہنچے ہیں پائے مصطفیٰ

ہیں ملک حیراں عروج آدمیت دیکھ کر


اُٹھ گئی آخر نگاه رحمة للعالمیں

رحمتیں برسیں میرے اشک ندامت دیکھ کر


قبر میں ہر سمت جنت کے دریچے کھل گئے

جب کہا صل علیٰ ان کی شباہت دیکھ کر


خون میں شامل ہے اُن کے خون کا ذرہ ادیب”

رشک کرتا ہے زمانہ میری نسبت دیکھ کر

 _______________


جو نورِ مصطفیٰ زینت دہ مکہ نہیں ہوتا

 جو نورِ مصطفیٰ زینت دہ مکہ نہیں ہوتا

بتوں کا گھر تو ہوتا خانہ کعبہ نہیں ہوتا


جو ان کو بھیجنا تخلیق کا منشا نہیں ہوتا

سوال حضرت آدم کبھی پیدا نہیں ہوتا


نہ کیوں تکرار قرب خاص میں ہوا دن منی کی

کہ محبوب و محب کے درمیاں پردہ نہیں ہوتا


ہے صدقہ سرور عالم کے پائے ناز کا ورنہ

مرا ایمان ہے یثرب کبھی بطحی نہیں ہوتا


محمد مصطفی محبوب رب نور مجسم ہیں

دلیل نور یہ ہے نور کا سایہ نہیں ہوتا


بہار گلشن طیبہ کی رکھتا ہے طلب دل میں

جنون عشق احمد طالب صحرا نہیں ہوتا


کسی کے در پہ کشکول گدائی لیکے کیوں جاؤں

غلام مصطفیٰ منت کش دنیا نہیں ہوتا


ہمہ دم اپنے گرد و پیش اک جھرمٹ ہے جلووں کا

تری یادوں کے صدقے میں کبھی تنہا نہیں ہوتا


بجائے جوش نعت مصطفیٰ میں ہوش لازم ہے

گزر جانا حدوں سے اے ادیب ” اچھا نہیں ہوتا

 _______________


Top Categories