madaarimedia

دور شادمانی ہے ہر طرف زمانے میں

 دور شادمانی ہے ہر طرف زمانے میں

کس کی آمد آمد ہے ہاشمی گھرانے میں


حکم حق سے تھیں ساکن گردشیں دو عالم کی

ساعتیں کہاں گزریں ان کے آنے جانے میں


عائشہ نے حجرے میں گمشدہ سوئی پائی

کھل گئے در دنداں جب بھی مسکرانے میں


نسبت رسالت سے عشق اولیاء پایا

سو دئیے ہوئے روشن اک دیا جلانے میں


بنٹ رہی ہیں روز و شب نعمتیں دو عالم کی

کچھ کمی نہیں پھر بھی آپ کے خزانے میں


امتحاں کی منزل ہے مصطفیٰ کے دیوانو !

ہے تباہئی ایماں پاؤں لڑکھڑانے میں

 _______________


ہم ہیں یہ لو لگائے دیار حضور میں آئے تو موت آئے دیار حضور میں

 ہم ہیں یہ لو لگائے دیار حضور میں

آئے تو موت آئے دیار حضور میں


مالک اگر بلائے دیارِ حضور میں

سر کو قدم بنائیں دیار حضور میں


شاہانِ دہر کیا ہیں فرشتے بھی صف بہ صف

آتے ہیں سر جھکائے دیار حضور میں


خاروں کو بھی گلوں کی صفت اسلئے ملی

کیوں کوئی دکھ اٹھائے دیار حضور میں


مہر جلال وادئی مکہ میں شعلہ ریز

اور جاند مسکرائے دیار حضور میں


اے حسن کا ئنات فدا تجھ پہ کیا کریں

ہم دل تو چھوڑ آئے دیار حضور میں


تشنہ لبوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہر طرف

ابر کرم کے سائے دیار حضور میں


سوغات بہر نذر ضروری ہے اے ادیب”

دل توڑ لے تو جائے دیار حضور میں

 _______________


ہوتی نہ اگر زلفِ پریشان محمد

 ہوتی نہ اگر زلفِ پریشان محمد

محشر میں کہاں جاتے غریبان محمد


وہ چاہیں تو رک جائے ابھی گردش دوراں

کیا پوچھتے ہو طاقت و امکان محمد


مدت کی تپی تونسی زمیں ہوگئی سیراب

جب عام ہوئی بارش فیضانِ محمد


وہ جن کو نہ مل پائی حضوری کی اجازت

گزرے ہیں کچھ ایسے بھی غلامان محمد


کرتے ہیں فقیری میں نگہدارئ غیرت

پھیلاتے نہیں ہاتھ گدایان محمد


بھجوایا تھا آقا نے جنہیں پیرہن اپنا

کہیے انہیں منجملۂ خاصان محمد


صدیق وہی عدل کی میزان میں ٹھہرا

جس دل میں ترازو ہوا پیکان محمد


بے مثل سخاوت میں شجاعت میں وہی ہیں

جن سے کہ بڑی مرتبت وشان محمد


سمجھا ہے ” ادیب” ان کو تو بس ذات خدا نے

صدیق بھی کر پائے نہ عرفان محمد

 _______________


مدینہ کی جانب گھٹائیں رواں ہیں

 مدینہ کی جانب گھٹائیں رواں ہیں

کہاں ہیں مری آرزوئیں کہاں ہیں


فرشتوں میں ہلچل ہے معراج کی شب

حضور آنے والے سر لامکاں ہیں


کتاب حیات دو عالم کو دیکھا

محمد ہی عنوان ہر داستاں ہیں


سجائی تو ہے بزم ذکرِ رسالت

نہ دیکھیں جو وہ محنتیں رائیگاں ہیں


انہیں کے تو سر پر ہے تاج شفاعت

وہی نازشِ جملہ پیغمبراں ہیں


کوئی انتہائے نوازش تو دیکھے

خدا میزباں ہے نبی میہماں ہیں


وہی تو بنے باعث وحئ اقراء

وہی تو کلام خدا کی زباں ہیں


بہت سخت ہے منزل درک احمد

کہ خاموش صدیق سے رتبہ داں ہیں


یہی کہہ کے خضرا نے آغوش کھولی

عمر پر یہ فرقت کے لمحے گراں ہیں


ہیں دو نور عثمان نے جب سے پائے

زمیں کہہ رہی ہے کہ ہم آسماں ہیں


گئے علم کے شہر میں ہم تو دیکھا

کہ ہر جا علی کے قدم کے نشاں ہیں


” ادیب” ان کو سمجھو نہ تم میری آنکھیں

کھلی عشق سرکار کی کھڑکیاں ہیں

 _______________


ہیں بد سے بھی بدتر مرے اعمال مدینہ

 ہیں بد سے بھی بدتر مرے اعمال مدینہ

کیا آؤں ترے پاس بایں حال مدینہ


یوں تو ہوں میں اک مفلس و کنگال مدینہ

آنسو ہیں فقط میرے زر و مال مدینہ


میں اڑ کے پہونچ جاؤں در پاک نبی تک

دیدے مجھے تو ایسے پر و بال مدینہ


تو چاہے تو مل جائے مجھے مرہم دیدار

دل ناوک ہجراں سے ہے غربال مدینہ


اب بھی جو فضاؤں میں تری گونج رہے ہیں

سُنوا دے وہ سرکار کے اقوال مدینہ


جب تک کہ تو جب نہ کریں رحمتِ عالم

ممکن نہیں سنبھلیں مرے احوال مدینہ


میں کاش پہونچتا جو تری پاک زمیں پر

کرتا جسد خاکی کو پامال مدینہ


تو آخری آرام گہِ سرور دیں ہے

کونین میں کب ہے تری امثال مدینہ


رکھتا ہے ادیب آج بھی امید رسائی

دل میں تراغم کیسے نہ لے پال مدینہ

 _______________


اتنا بڑا اعجاز دکھانا سب کے بس کی بات نہیں

اتنا بڑا اعجاز دکھانا سب کے بس کی بات نہیں

کنکریوں سے کلمہ پڑھانا سب کے بس کی بات نہیں


ممکن ناممکن کو بنانا سب کے بس کی بات نہیں

سورج کو واپس لوٹانا سب کے بس کی بات نہیں


ظلم و ستم کا سہ لینا تو ہوتا ہے آساں لیکن

بہر دعا پھر ہاتھ اٹھانا سب کے بس کی بات نہیں


ملک عرب کے بکھرے قبیلے جو سرکش اور ظالم تھے

انکا اک مرکز پر لانا سب کے بس کی بات نہیں


تئیس سال میں اکملت کی پا جانا خالق سے سند

ہم ہی نہیں کہتا ہے زمانہ سب کے بس کی بات نہیں


آکے ستارا برج فلک میں پتھر موم بناتا ہے

لیکن اس کا برج میں لانا سب کے بس کی بات نہیں


سب امکان رسائی میں ہیں مہر و مہ و انجم لیکن

عرش خدا پر آنا جانا سب کے بس کی بات نہیں


شافع محشر ہی چاہیں تو ان کی عنایت ہے ورنہ

مجرم کو جنت دلوانا سب کے بس کی بات نہیں


بات کوئی ہو اس کا زباں سے کہنا تو ہے سہل ادیب”

اس پہ عمل کر کے دکھلانا سب کے بس کی بات نہیں 

 _______________


حرص کے بندوں کو گنجینہ زرکافی ہے

حرص کے بندوں کو گنجینہ زرکافی ہے
ہم کو سرکار مدینہ کی نظر کافی ہے

دو نہ دربار رسالت میں زباں کو زحمت
ترجمانی کے لئے دیدہ تر کافی ہے

آتو جاتا ہے کوئی دم کے لئے دل کو قرار
ذکر طیبہ ترا اتنا ہی اثر کافی ہے

پھونک دینے کے لئے ہستئ خاشاک خودی
عشق احمد کا فقط ایک شہر کافی ہے

بخدا تذکرۂ رحمت عالم کے لئے
صبح تا شام نہ شب تاب سحر کافی ہے

یاد طیبہ میں گرے آنکھ سے جو دامن پر
نذر خالق کو وہی ایک گوہر کافی ہے

طالب خونِ جبیں ہیں تو مقامات بہت
سجدۂ شوق کو بس آپ کا در کافی ہے

یوں تو ادراک محمد نہیں آسان ادیب”
شہپر عشق کی پرواز مگر کافی ہے

 _______________


خدمت سرور کونین میں تحفہ لیکر

 خدمت سرور کونین میں تحفہ لیکر

سوئے طیبہ میں چلا قلب شکستہ لیکر


چاند تاباں ہے ترا نقش کف پا لیکر

تارے روشن ہیں ترے نور کا صدقہ لیکر


مرنے والوں کو حیات ابدی ملتی ہے

طیبہ ہم جاتے ہیں جینے کی تمنا لیکر


کر لیا رحمت خالق کو کرم پر مائل

میں نے سرکار مدینہ کا سہارا لیکر


اس کے ہی نور سے نبیوں کو ملی ہے عظمت

آئے تھے جس کی خبر نوح و مسیحا لیکر


ہم قیامت کی کڑی دھوپ سے پائیں گے نجات

سرپہ اے گنبد خضرا ترا سایہ لیکر


وادئ پاک مدینہ ترے ذروں کے عوض

کوئی کو نین بھی دیدے تو کروں کیا لیکر


اب کسی منظر کو نین پہ رکتیں ہی نہیں

مطمئن ہو گئیں آنکھیں ترا جلوہ لیکر


کیوں نہ دیں جان کہ مرقد میں سنا ہے ہم نے

آپ آئیں گے جمال رخ زیبا لیکر


جرت عرض نہیں ہے بہ تقاضائے ادیب”

چپ ہیں جبریل پیام شب اسری لیکر

 _______________


کیا حشر ہے کیا قصہ انعام و سزا ہے

کیا حشر ہے کیا قصہ انعام و سزا ہے

ہوگا وہی جو مرضئ محبوب خدا ہے


حیراں ہیں ملک عرش قدم چوم رہا ہے

کیا شان تری صاحب لولاك لما ہے


ایمان کا ماحول عقیدت کی فضا ہے

غنچوں کے لبوں پر بھی درودوں کی صدا ہے


غربت پہ کرم کرنا ہی خالق کی رضا ہے

یہ ذہن تو سرکار کی سیرت سے ملا ہے


کیا لطف و کرم حشر میں اے صل علیٰ ہے

ہر امتی اوڑھے ہوئے رحمت کی ردا ہے


سرکار کا چہرہ ہے کہ والشمس کی تفسیر

زلفیں ہیں کہ چھائی ہوئی رحمت کی گھٹا ہے


ہے کتنا معطر قد رعنائے محمد

اصحاب نے خوشبو سے انہیں ڈھونڈ لیا ہے


جس خاک کو ہے پائے رسالت نے نوازا

وہ خاک قدم سرمۂ ارباب وفا ہے


گزری ہوئی صدیاں بھی نہیں ہیں اثر انداز

جب ذکر مدینے کا کیا جائے نیا ہے


تو محرم اسرار تو ہی شاہد اقراء

کیا رفعت تقدیر تری غار حرا ہے


لگتا ہے قریب آگئے ہم شہر نبی کے

جذبات کی دنیا میں قیامت سی بپا ہے


گھبراؤ نہ اے عاصیو دو اس کی دہائی

جو اسم گرامی در جنت پہ لکھا ہے


میں قیدی زنجیر ہوس ہو نہیں سکتا

ہاتھوں میں مرے سلسلۂ آل عبا ہے


ہر در سے جہاں پائیگا فیضانِ رسالت

پھیلا ہوا اک سلسلۂ اہل ولا ہے


اب روک نہ پائے گی مجھے گردش ہستی

سرکار نے طیب میں مجھے یاد کیا ہے


لے آئی ہے جو گنبد خضری کی بلائیں

اترائی ادیب ” آج بہت موجِ صبا ہے 

 _______________


بگڑا ہوا بنتا ہے ہر کام مدینے میں

 بگڑا ہوا بنتا ہے ہر کام مدینے میں
پائیگا دل بسمل آرام مدینے میں

اے گردش روز و شب اتنا تو کرم کر دے

کعبے میں سحر گزرے اور شام مدینے میں


قسمت کے دھنی وہ ہیں جو دیکھ کے آئے ہیں

پھیلے ہوئے انوار اسلام مدینے میں


جو موت کہ آنی ہے بے نام و نشاں کرنے

وہ موت ہے جینے کا پیغام مدینے میں


تسلیم کہ ہے بیشک آغاز بر الیکن

ہوگا مری ہستی کا انجام مدینے میں


ملتی ہے جسے پی کر صدیقی ، وفاروق

آؤ نہ پئیں چل کر وہ جام مدینے میں


جو کفر سمجھتے ہوں تعظیم محمد کو

کہدے کوئی ایسوں کا کیا کام مدینے میں


دیوار و در مکہ ہیں ساتھ محمد کے

کعبے نے بھی باندھا ہے احرام مدینے میں


آیا ہے ادیب ” اپنے الزام جنوں سر پر

اے کاش یہ سر آتا الزام مدینے میں

 _______________


Top Categories