madaarimedia

جو دل کو احساس نارسی دے وہ کرب غم ہے خوشی نہیں ہے

 جو دل کو احساس نارسی دے وہ کرب غم ہے خوشی نہیں ہے

فراق طیبہ میں جو بسر ہو وہ موت ہے زندگی نہیں ہے


پہنچ گئے ہیں جہاں پہ آقا مجالِ جبریل بھی نہیں ہے

یہ ہے مقام حبیب داور کمال پیغمبری نہیں ہے


دکھانا تاب و تواں کے جو ہر اٹھانا ہاتھوں پہ باب خیبر

ظہور اعجاز احمدی ہے شجاعت حیدری نہیں ہے


یہ دی ہے جبریل نے گواہی کہ ماہ سے لے کے تابہ ماہی

تمام خلقت ہے ہم نے دیکھی حضور کا مثل ہی نہیں ہے


یہ آفتاب حرا کے دم سے جہان میں روشنی ہے ورنہ

ہر ایک شئے کی بنا ہے ظلمت کسی میں تابندگی نہیں ہے


یہ بات ہے بندگی کی حاصل یہی رضائے خدا کی حامل

نہ جس میں عشق نبی ہو شامل وہ بندگی بندگی نہیں ہے


ادیب” کونین کو خدا نے انہیں کے ہے نور سے بنایا

نگاہ سرکار دو جہاں میں کوئی بھی شئے اجنبی نہیں ہے

 _______________


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے

آدمی آدمیت سے جانے لگے

بربریت کے جوہر دکھانے لگے

موت سے زندگی کو ڈرانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


دب گئی شور باطل سے حق کی صدا

چھا گئی ماہ کامل پہ کالی گھٹا

کفر کے فتنے پھر سر اٹھانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


ہو چکا پھر سے صامت کلام خدا

کھو چلے اپنے معنی ورا ماورا

جہل کے پھر چمن لہلہانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


توڑ کر شیشہ پھر عبد و معبود کا

چھوڑ کر اہلِ عالم صراط خدا

سر کو غیروں کے آگے جھکانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


نعمت بے بہا بن گئی خواجگی

جس کو دیکھو ہے وہ طالب بندگی

اہلِ زر مفلسوں کو ستانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


دیکھ کر ہر طرف نور چھایا ہوا

بخشش حق کا سیلاب آیا ہوا

دل کو ارمان خود اپنے بھانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


پھر نظر ایک ماہ جمیل آ گیا

آس کا پھر اشاره سادل پا گیا

ولولے اپنے پھر جان پانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


آسرے دل کے سارے جواں ہو گئے

اتنے ارما‌ بڑھے کارواں ہو گئے

اور تقاضے طلب کے ستانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


یہ مہکتی فضا یہ مہکتی ہوا

یہ اشارے امیدوں کے صبر آزما

کیف و مستی کی دولت لٹانے لگے


پھر محمد مجھے یاد آنے لگے


جب بھڑکنے لگا جوش دیوانگی

اے ادیب” اٹھ کے جذبات عشق نبی

اور بھی دل کو وحشی بنانے لگے

پھر محمد مجھے یاد آنے لگے 

 _______________


سمت مکہ سے اٹھی جھوم کے رحمت کی گھٹا

سمت مکہ سے اٹھی جھوم کے رحمت کی گھٹا

آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


چشمۂ نور بها، ہر طرف پھیلی ضیا

ظلمت کفر گھٹی نور ایمان بڑھا

بقعۂ نور بنی سارے زمانے کی فضا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


ساقیا جام چلے جس سے کچھ کام چلے

مستی عشق بڑھے تیرا بھی نام چلے

کہدے مطرب سے کہہ دے چھیڑ خوشی کا نغمہ


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


ارض مکہ کی قسم بختِ طیبہ کی قسم

گر کے بہت چیخ اٹھے رب کعبہ کی قسم

آج لائی ہے اثر بانئ کعبہ کی دعا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


یہ جہاں رقص میں ہے آسماں رقص میں ہے

آسماں چیز ہے کیا لامکاں رقص میں ہے

محفل نور میں ہر سمت ہے اک شور مچا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


مٹ گئی آفت شر چمکی تقدیر بشر

شرک و بدعت کا نہیں اب زمانے میں گزر

ڈھا کے باطل کے محل ڈالنے پھر حق کی بنا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


سیم و زر کانپ اٹھے بحرو بر کانپ اٹھے

قصر شاہی کے بھی بام و در کانپ اٹھے

رنگ لے آئی غریبوں کے دکھے دل کی صدا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


بے کسو! ناز کرو بے بسو! ناز کرو

قدر افلاس بڑھی مفلسو! ناز کرو

ہو گئی دور زمانے سے امیری کی بلا


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


گمرہی ختم ہوئی اب نہ بھٹکے گا کوئی

پھر بھلا کیوں نہ بڑھے ہمت راہ روی

مل گیا مل گیا دنیا کو رہ حق کا پتہ


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


سر بسجدہ ہے فلک دست بستہ ہیں ملک

ہے یہی شور بپا ، فرش سے عرش تلک

اٹھنے ہی کو ہے کوئی دم میں دوئی کا پردہ


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا


صدقے اے شانِ عطا مٹ گئی فکر جزا

اب مرے دل میں ادیب” کچھ نہیں خوف سزا

نعت کا دینے مجھے اپنے ہی ہاتھوں سے صلہ


آئے محبوب خدا آئے محبوب خدا 

 _______________


فریاد جو دل سے کی جائے مملو بہ اثر ہو جاتی ہے

فریاد جو دل سے کی جائے مملو بہ اثر ہو جاتی ہے

سینے میں جو ہوتی ہے دھڑکن طیبہ میں خبر ہو جاتی ہے


دنیا کی نگاہیں دیکھتی ہیں تب شکل محمد میں اس کو

تخئیل حسین قدرت جب ہمشکل بشر ہو جاتی ہے


اللہ رے کیف عشق نبی دیوانے کو یہ بھی یاد نہیں

کس وقت ہیں کھلتے گیسوئے شب کس وقت سحر ہو جاتی ہے


اے رحمت عالم کیا شئے ہے واللہ تمہاری شان کرم

ہر چند نہیں آتی ہے نظر محسوس مگر ہو جاتی ہے


ہے ارض و فلک کی ہستی کیا انسان و ملک کی گنتی کیا

سرکار جدھر ہو جاتے ہیں مخلوق ادھر ہو جاتی ہے


ملجاتا ہے جس کو قسمت سے تھوڑا سا بھی درد عشق نبی

پھر ہجر کی راتیں کیا شئے ہیں اک عمر بسر ہو جاتی ہے


لیتا ہے بنا کندن دل کو جو آتش عشق احمد سے

واللہ ادیب ” ایسے دل پر خالق کی نظر ہو جاتی ہے 

 _______________


تولے تو چل گردش زمانہ نہ پوچھ طیبہ میں کیا ملے گا

تولے تو چل گردش زمانہ نہ پوچھ طیبہ میں کیا ملے گا

جو محور جستجو ہے میرا وہ حجرہ عائشہ ملے گا


جہان میں دہشت لحد سے ہر ایک دل غمزدہ ملے گا

مگر میں خوش ہوں کہ دیکھنے کو وہاں رخ مصطفی ملے گا


خدارا اے رہرو مدینہ ہوائے امید دیتے جانا

کہیں تجھے میری حسرتوں کا تھکا تھکا قافلہ ملے گا


مدینہ جانا بقلب مضطر نظر اٹھانا بچشم پرنم

نظر کو کیف نظر ملے گا حیات کو ذائقہ ملے گا


ابوالبشر ہوش تو سنبھالو انہیں کی رحمت کا آسرالو

نگاه عرش خدا پہ ڈالو تمہیں محمد لکھا ملے گا


جمال صورت کا پوچھنا کیا خدا نے ان پر درود بھیجا

کمال سیرت کا دیکھنا کیا ہر اک عمل آئینہ ملے گا


ہے مال وزر ٹھوکروں میں لیکن شکم پہ پتھر بندھے ہوئے ہیں

تمہیں غریبی میں جینے والو حضور سے حوصلہ ملے گا


اسی جگہ کسب نور کرتے ملیں گے دو اور بدر کامل

جہاں مدینہ میں محو راحت وہ آفتاب حرا ملے گا


صدائے غیبی یہ سن رہا ہوں ادیب” کیا اور چاہتا ہے

جو مقصد زندگی ہے تیرا وہ عشق خیر الوری ملے گا 

 _______________


نور احمد سے منور ہے مدینے کی زمیں

نور احمد سے منور ہے مدینے کی زمیں

سجده گاہ مہ و اختر ہے مدینے کی زمیں


قدم ناز محمد سے شرف پاتا ہے

عرش رکھے ہوئے سر پر ہے مدینے کی زمیں


پا گئی تھی کبھی گیسوئے محمد کی مہک

اب بھی اتنی ہی معطر ہے مدینے کی زمیں


ایک ہم جن کا ٹھکانا نہیں دنیا میں کہیں

ایک وہ جن کو میسر ہے مدینے کی زمیں


اپنے عشاق کی توقیر بڑھانے کے لئے

اٹھ کے آئی سر محشر ہے مدینے کی زمیں


سب یہ کہتے ہیں کہ اشرف ہے دیار کعبہ

کعبہ کہتا ہے کہ بہتر ہے مدینے کی زمیں


ان میں موتی ہیں رسالت کے امامت کے گہر

کیا کہیں کتنی تو نگر ہے مدینے کی زمیں


وجہ کونین کا مسکن ہے اسی کا سینہ

سارے کو نین کا جوہر ہے مدینے کی زمیں


بے ادب نجد کا صحرا ہے تری قسمت میں

اہل ایماں کا مقدر ہے مدینے کی زمیں


چل و ہیں تو بھی مقدر جو بنانا ہے ادیب”

مرکز دین پیمبر ہے مدینے کی زمیں 

 _______________


اک تحفۂ نایاب ہے خالق کی نظر میں

 اک تحفۂ نایاب ہے خالق کی نظر میں

وہ سجدہ کیا ہے جو تری راہ گزر میں


ممکن نہ ہو ادراک تری ذات کا اب تک

ہونے کو تو یوں کیا نہیں امکان بشر میں


سب پر تو روئے شہ بطحا کا ہے صدقہ

ورنہ یہ تحلی کہاں انوار سحر میں


یہ ہجر غم عشق محمد سے ہیں نکلے

آنسو ہیں کہ موتی ہیں مرے دیدۂ تر میں


اے یاد مدینہ ترا صدقہ ہے کہ ہر دم

اک تازہ کسک پاتا ہوں میں قلب و جگر میں


اے سختیئ منزل میں گلے تجھ کو لگاتا

مل جاتی کہیں تو جو مدینے کے سفر میں


نکلی تو ہے ہجر شہ بطحا میں تو اے آہ

اللہ کرے ڈوب کے نکلی ہو اثر میں


ہے سامنے آنکھوں کے مرے گنبد خضرا

یا جلوے سمٹ آئے ہیں دامان نظر میں


کہتے ہیں اسی کو تو ادیب” اصل اطاعت

بس نام خدا رہ گیا صدیق کے گھر میں

 _______________


کچھ اور اس کو سجھئے وہ آدمی کیا ہے

 کچھ اور اس کو سجھئے وہ آدمی کیا ہے

جسے پتہ ہی نہیں الفت نبی کیا ہے


مجھے یقین ہے میں کچھ بھی کہہ نہ پاؤں گا

اگر حضور یہ پونچھیں تری خوشی کیا ہے


بڑے گا شوق حضوری کچھ اور اے زائر

ابھی تو دور ہے طیبہ سے تو ابھی کیا ہے


بچھڑ گیا ہے یہ شاید کوئی مدینہ سے

ہر اک سے پوچھتا پھرتا ہے زندگی کیا ہے


ہوا طلوع وہیں سے ہے دین کا سورج

ثبوت غار حرا دے گا روشنی کیا ہے


مدینے پہنچا تو محسوس یہ ہوا مجھ کو

ہر ایک شئے یہاں اپنی ہے اجنبی کیا ہے


سبق یہ مل گیا خلق محمدی سے ہمیں

کہ اک پڑوسی سے انداز دوستی کیا ہے


رکھے ہوئے ہوں میں نعلین مصطفیٰ سر پر

یہ مجھ سے پوچھو کہ تاج شہنشہی کیا ہے


کشود راه ہدایت کا ہے ذریعۂ خاص

جہاں میں چاروں صحابہ کی پیروی کیا ہے


سفر مدینے کا کرنے کے بعد ہی تو ادیب”

پتہ یہ چلتا ہے اخلاص باہمی کیا ہے

 _______________


بسائے رکھو دلوں میں خیال طیبہ کا

 بسائے رکھو دلوں میں خیال طیبہ کا

کوئی تو ہو سببِ اتصال طیبہ کا


لئے ہیں چوم جو سرکار دو جہاں کے قدم

تو کوچہ کوچہ ہوا بے مثال طیبہ کا


مقام سدرہ نہیں ہے یہ جبرئیلِ امیں

ادب ہے شرط کہ یہ ہے سوال طیبہ کا


حضور جلوہ فگن ہیں تو پھر ہر اک موسم

سدا ملے گا تمہیں لا زوال طیبہ کا


جو سرجھکے تو پہنچ جاؤں میں مدینے میں

جنون عشق وہ رستہ نکال طیبہ کا


بجز حضور کے موضوع گفتگو ہی نہیں

ہر اک سے پوچھتا رہتا ہوں حال طیبہ کا


ذرا جبین فلک کو تو غور سے دیکھو

ہے مہر و ماہ میں حسن و جمال طیبہ کا


شعور دین ملا ہے در نبی سے مجھے

ہے میرا رہن کرم بال بال طیبہ کا


بہت حسین ہو تصویر کائنات اگر

بتا ہو نقشہ کہیں خال خال طیبہ کا


وہیں سے ملتا ہے دونوں کو گردشوں کا نظام

طواف کرتے ہیں یہ ماہ و سال طیبہ کا


گئے ہیں اوج فلک پر بشکل صوتِ اذاں

پیام لے کے جناب بلال طیبہ کا


میں کیا کروں گا مہ و مہر کاتب تقدیر

مرے نصیب میں لکھ دے ہلال طیبہ کا


ہے بخشا نعت نبی نے تجھے وقار ادیب”

یہ کہہ رہا ہے ہر اک باکمال طیبہ کا

 _______________


غلط کہ آقا نے بیت الحرام چھوڑ دیا

 غلط کہ آقا نے بیت الحرام چھوڑ دیا

یہ سچ ہے مکہ میں اپنا قیام چھوڑ دیا


نبی نے جس سے سلام و پیام چھوڑ دیا

تو کرنا اس سے سبھی نے کلام چھوڑ دیا


چلے حضور جو اقصیٰ سے عرش کی جانب

تو گردشوں نے جہاں کا نظام چھوڑ دیا


حرام کر دیا سرکار نے جو دور شراب

ہر ایک شخص نے ہاتھوں سے جام چھوڑ دیا


مدینے والو! ملے گی جگہ نہ دنیا میں

اگر حضور کا قرب دوام چھوڑ دیا


حضور بدر و احد میں ہیں معرکہ آرا

کہ آج شیخ نے اپنا نیام چھوڑ دیا


بکھر گئی ہے کچھ ایسی ہوائے زلفِ نبی

کہ بوئے گل نے بھی اپنا خرام چھوڑ دیا


حضور محو سماعت تھے عرض کیا کرتا

سنایا قصہ مگر نا تمام چھوڑ دیا


لکھیں گی ذلت و رسوائیاں مقدر میں

کسی نے ان کا اگر احترام چھوڑ دیا


وہ جاں نثار بھی کیا تھے جنہوں نے دریا میں

سفینہ لیکے محمد کا نام چھوڑ دیا


بتا اے شوق حضوری کہ ہے مجھے تو نے

چلا کے راہ پہ کیوں گام گام چھوڑ دیا


اگر پڑی ہے ضرورت حبیب خالق کو

تو جبرئیل نے سدرہ کا بام چھوڑ دیا


ملا ہے جام جسے ساقئ مدینہ سے

وہ کہہ نہ پایا مجھے تشنہ کام چھوڑ دیا


بنا کے قاسم نعمات ان کو خالق نے

انہیں کی ذات پہ کل انتظام چھوڑ دیا


ہٹی جو اسوۂ سرکار سے نظر تو ادیب”

بنا کے نفس نے مجھ کو غلام چھوڑ دیا

 _______________


Top Categories