madaarimedia

اللہ ری وہ ژرف نگاہی بلال کی

اللہ ری وہ ژرف نگاہی بلال کی

سرکار دے رہے ہیں گواہی بلال کی


وہ جانتا ہے کیا ہے سیاہی بلال کی

دیکھی ہے جس نے نور نگاہی بلال کی


اس دور کفر و شرک میں توحید کے لئے

درکار تھی احد کو گواہی بلال کی


جب سے شرف غلامئ آقا کا مل گیا

سارے جہان پر ہوئی شاہی بلال کی


پہنچے وہی ہیں منزلِ عشق رسول تک

تقلید کر رہے تھے جو راہی بلال کی


لے گی عقیدتوں کا خراج اہلِ عشق سے

روز جزا خمیدہ کلاہی بلال کی


سنگ گراں کے نیچے بھی کہتے رہے احد

آقا کو بھاگئی یہ ادا ہی بلال کی


حیرت میں پڑ گیا ہے سر اوج لامکاں

آواز سن کے عرش کا راہی بلال کی


بے روک ٹوک خلد میں جانے کو چاہئے

پروانہ مصطفیٰ کا گواہی بلال کی


کچھ اور تجھ سے مانگوں تو کٹ جائے یہ زباں

توفیق عشق دیدے الہی بلال کی


لپٹا ہوا ہے کعبہ علاف سیاہ میں

محبوب ہے خدا کو سیاہی بلال کی


روشن ہوا ہر ایک طبق کائنات کا

گردش میں آگئی جو سیاہی بلال کی


آقا نے اختیار کیا ہے سیہ لباس

اتنی پسند آئی سیاہی بلال کی


تھیں جوڑنی جو نسبتیں ان کے غلام سے

ہیں لے اڑیں گھٹائیں سیاہی بلال کی


گہنا لیا ہے چاند نے اپنے کو رشک میں

جب سے نظر ہے آئی سیاہی بلال ک


لوگو! وجود ماه پہ ڈالو تو اک نظر

کتنی چمک رہی ہے سیاہی بلال کی


ظلمات کا وقار نگاہوں میں بڑھ گیا

لائی عجیب رنگ سیاہی بلال کی


حوران جنتی نے بصد شوق خال خال

مل جل کے بانٹ لی ہے سیاہی بلال کی


بن جاؤں آفتاب درخشاں سے بھی سوا

مل جائے کاش تھوڑی سیاہی بلال کی


ہم سے سیاہ کاروں کی قسمت چمک اٹھی

چھائی جو آسماں پہ سیاہی بلال کی


ہے دیکھنا جو نور رسالت مآب کا

رکھ لی ہے پتلیوں میں سیاہی بلال کی


ڈالی نگاہ نورِ مجسم نے ہے ” ادیب”

ہے وجہ فخر و ناز سیاہی بلال کی 

 _______________


مکی مدنی ہاشی و مطلبی کے

مکی مدنی ہاشی و مطلبی کے

چرچے ہیں جہاں میں تری عالی نسبی کے


بے مثل ہیں الفاظ احادیث نبی کے

اے علم قدم چوم لے امی لقبی کے


منظور نہ تھا سرور کونین کو ورنہ

ہم ان کی حضوری میں پہنچ جاتے کبھی کے


آئے ہیں خود آقا ہی مری پیاس بجھانے

دیکھو تو یہ انداز مری تشنہ لبی کے


دربار میں آقا کے کبھی اف بھی نہ کرنا

امکان ہزاروں ہیں وہاں بے ادبی کے


چمکا سر فاراں ہے جو ایمان کا سورج

بے نور ہوئے سارے دیۓ بولہبی کے


مزمل و مدثر و یاسیں کہیں طحہ

قربان دل و جان تری خوش لقبی کے


سرکار مدینہ تو ہیں سرکار مدینہ

بے مثل ہیں اصحاب رسول عربی کے


صدیق و عمر ہوں کہ وہ عثمان و علی ہوں

سیارہ روشن ہیں میری تیرہ شبی کے


کیا نعت کہے ان کو ” ادیب ” اپنی زباں سے

یہ شعر ہیں سرکار مرے ذہن غبی کے 

 _______________


اتنی ہی میری عرض ہے اتنی ہی التجا فقط

اتنی ہی میری عرض ہے اتنی ہی التجا فقط

حشر کے دن حضور دیں اپنا مجھے بتا فقط


فرش زمین پر رہے جتنے تھے انبیاء فقط

عرش کے میہماں بنے احمد مجتبی فقط


عالم مفلسی میں تھا کوئی نہ میرا آسرا

مجھ کو حضور نے دیا جینے کا حوصلہ فقط


دیکھے تو کوئی یہ ذرا شان حبیب کبریا

جسم پہ سادہ سی عبا دوش پہ اک ردا فقط


منزل عرش و فرش میں اچھی لگی نہ کوئی جا

دل کو پسند آگیا طیبہ کا راستہ فقط


ناز عبادتوں پہ وہ اپنی کرے نہ کس لئے

جسکی جبیں یہ ثبت ہو آپ کا نقش پا فقط


سارے جہاں کی نعمتیں دے کہ نہ دے مجھے خدا

عشق مگر عطا کرے قلب بلال کا فقط


جلوۂ گیسوئے نبی زلفِ رسول ہاشمی

میرے جنونِ عشق کا تجھ سے سے ہے سلسلہ فقط


کوئی نہیں جہان میں جو دے سکے آسرا ادیب”

سب کی گزارشات کو سنتے ہیں مصطفى فقط 

 _______________


لہو میں بوئے شرافت مرے حضور کی ہے

 لہو میں بوئے شرافت مرے حضور کی ہے

مری حیات امانت مرے حضور کی ہے


ہر امتحاں سے گذر جائے گا بہ آسانی

نصیب جس کو حمایت مرے حضور کی ہے


کسے ملا ہے مقام شفاعت کبری

ہر اک نبی کو ضرورت مرے حضور کی ہے


مجھے بہشت میں جانے سے کون روکے گا

حضور میرے ہیں جنت مرے حضور کی ہے


تمھارا مرتبہ اصحاب بدر کیا کہنا

تمھارے حق میں بشارت مرے حضور کی ہے


کلیم و نوح و سلیماں ہوں یا ذبیح و خلیل

یہ مقتدی ہیں امامت مرے حضور کی ہے


علی و بوذر و سلماں غنی عمر صدیق

حسین کتنی جماعت مرے حضور کی ہے


کسی بھی موڑ پہ گمراہ ہو نہیں سکتا

جسے نصیب قیادت مرے حضور کی ہے


الجھ نہ ان کے غلاموں سے سختئ حالات

بہت ہی نرم طبیعت مرے حضور کی ہے


وہی تو باعث تخلیق ہر دو عالم ہیں

ہر ایک شئے پہ حکومت مرے حضور کی ہے


ادب سے آتے جہاں پر ہیں قدسیان فلک

وہ بزم عید ولادت مرے حضور کی ہے


تری جناب میں یہ التجا ہے عالم غیب

وہ علم دے جو وراثت مرے حضور کی ہے


عجب نہیں ہے کہ پھر جائیں تیرے دن بھی ادیب”

کرم غریبوں پہ عادت مرے حضور کی ہے

 _______________


مقابلے میں ذرا آفتاب لائے تو

مقابلے میں ذرا آفتاب لائے تو

مرے حضور کا کوئی جواب لائے تو


جو اپنی بے بصری سے بہت ہراساں ہے

وہ خاک پائے رسالت مآب لائے تو


دہائی میں کرم بے حساب کی دونگا

فرشتہ میرے گنہ کا حساب لائے تو


جو رونما ہوا سر کار دو جہاں کے طفیل

جہاں میں ایسا کوئی انقلاب لائے تو


پہنچ کے منزل قوسین میں نبی کی طرح

کوئی تجلئ وحدت کی تاب لائے تو


بدل بھی سکتا ہے پل بھر میں ظلمتوں کا مزاج

خدا سے کوئی وہ روشن کتاب لائے تو


سکون پائے مری تشنگی مگر ساقی

کہیں سے عشق نبی کی شراب لائے تو


مہک تو سکتی ہیں خوشیو سے آج بھی نسلیں

” ادیب ” ان کا پسینہ گلاب لائے تو 

 _______________


جلالی ہے دنیا جمالی ہے دنیا

 جلالی ہے دنیا جمالی ہے دنیا
محمد کی سب سے نرالی ہے دنیا

محمد نے فاقے کے انداز دیکر

اندھیرے سے غم کے نکالی ہے دنیا


مقام محمد کے عرفاں سے ہم نے

سنبھالی ہے عقبی بنا لی ہے دنیا


غلامان احمد نے ہے جب بھی ہے چاہا

تو قدموں پہ اپنے جھکالی ہے دنیا


جو فاقہ کریں ہو کے مولائے عالم

اب ایسوں سے واللہ خالی ہے دنیا


حقیقت بناتا ہے فرض مسلمان

یہ مانا طلسمِ خیالی ہے دنیا


” ادیب ” ہم نے صدقے میں اپنے نبی کے

نگاہوں سے آخر گرالی ہے دنیا

 _______________


یہ تو مرضی پہ ہے انکی کہ وہ کب دیتے ہیں

یہ تو مرضی پہ ہے انکی کہ وہ کب دیتے ہیں

کچھ اگر منھ سے نہ مانگو تو وہ سب دیتے ہیں


کاش کہدیں مرے سرکار کہ جا دیوانے

ہم جنوں کو ترے صحرائے عرب دیتے ہیں


پردہ داری جو ہے منظور تو اسرار خدا

محزن علم کو امی کا لقب دیتے ہیں


دیکھیے سرور کونین کا انداز عطاء

خود کرم کرتے ہیں خود ظرف طلب دیتے ہیں


ان کی بخشش میں کم و بیش کا شکوہ کیسا

جھولیاں تنگ ہی ملتی ہیں وہ جب دیتے ہیں


یوں بڑھا دیتے ہیں درجات مدینے والے

جس پہ کرتے ہیں کرم قربت رب دیتے ہیں


میں کہاں اور کہاں خونِ رسالت کا وقار

کتنا دھو کہ یہ مجھے نام و نسب دیتے ہیں


کیوں نہ مانگے یہاں دنیا کے بہ ایمائے رسول

جس کو دیتے ہیں شہنشاہ حلب دیتے ہیں


یہ عنایت ہے ادیب ان کی کہ وہ ہم جیسے

بے ادب لوگوں کو توفیق ادب دیتے ہیں 

 _______________


ان کو امین رتبہ بے حد بنا دیا

 
ان کو امین رتبہ بے حد بنا دیا
احمد تھے وہ خدا نے محمد بنا دیا

پہلے خدا نے خلق کیا ان کے نور کو
پھر اس کو کائنات کا مقصد بنا دیا

رعنائیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
قدرت نے مصطفیٰ کا حسیں قد بنا دیا

مخلوق سے خدا نے کیا خود کو جب جدا
ذات حبیب پاک کو سرحد بنا دیا

مکے کی خشک دھرتی پہ یوں کر دیا کرم
حق نے اسے حضور کا مولد بنا دیا

حد سے سوا جو ہونے لگا ناز تیرگی
خالق نے ظلمتوں کا انہیں رد بنا دیا

میں ان کا نعت گو تھا تو سرکار نے ادیب

تاباں ہے نور سے مرا مرقد بنا دیا

 _______________

جلوہ جو رو پوش تھا وہ رونما کیسے ہوا


جلوہ جو رو پوش تھا وہ رونما کیسے ہوا

نور وحدت تھا تو کثرت آشنا کیسے ہوا


بات تھی اس کے کرم کی کچھ نہ تھے برق و براق

ورنہ پھر طئے لامکاں کا فاصلہ کیسے ہوا


پایا تھا جب زائرِ طیبہ نے اذن واپسی

سوچتا ہوں وہ مدینے سے جدا کیسے ہوا


غرق حیرت کرگئی نوری فرشتوں کی یہ بات

پیکر خاکی تھا مطلوب خدا کیسے ہوا


واقعہ شق القمر کا جو نہ آتا ہو یقیں

آسماں سے پوچھ لو یہ کب ہوا کیسے ہوا


تیرگئ کفر نے یہ صاف روشن کر دیا

انعكاس جلوه نور الھدی کیسے ہوا


یہ بتاتا ہے ہہیں اخلاق ختم المرسلیں

ختم یہ جور و جفا کا سلسلہ کیسے ہوا


شک نہیں تاثیر میں اس کی مگر یہ تو بتاؤ

نالہ در بار رسالت میں رسا کیسے ہوا


کانپ جاتے ہیں وہاں جاکر فرشتوں کے قدم

باب خضری تک گزر باد صبا کیسے ہوا


جو نہ تھا اعلان اکملت میں پنہاں کوئی راز

مضطرب صدیق سا رمز آشنا کیسے ہوا


کان میں پہنچی نہ تھی طیبہ سے جو صوت عمر

با خبر خطرے سے گوشِ ساریہ کیسے ہوا


چھپ نہیں سکتی شہادت جامع قرآن کی

آیتیں بتلائیں گی یہ واقعہ کیسے ہوا 

 _______________


ہر ایک دل میں ہے جائے محمد عربی

 
ہر ایک دل میں ہے جائے محمد عربی
ہر ایک جاں ہے فدائے محمد عربی

جہاں بہت ہیں مگر یہ کرم ہے خالق کا
کہ اس جہان میں آئے محمد عربی

ترے حضور الہی میں سر جھکاتا ھوں
سمجھ کے تجھ کو خدائے محمد عربی

مجھے حیات کی اب شورشیں نہ دیں آواز
کہ میں ہو محو ثنائے محمد عربی

کبھی قیام و قعود اور کبھی رکوع و سجود
نماز کیا ہے ادائے محمد عربی

جہاں پہ کیوں نہ بھلا اسکی حکمرانی ہو
جہاں بنا ہے برائے محمد عربی

ہر امتی کو بس اک آسرا ہے محشر میں
رضائے حق ہے رضائے محمد عربی

وہ ذات جس کی گزارش پہ حشر ہو قائم
نہیں ہے کوئی سوائے محمد عربی

دکھاتا آنکھیں تو خورشید حشر کیسے ادیب”

تھی میرے سر پہ ردائے محمد عربی

 _______________

Top Categories