madaarimedia

جب دی اماں نہ سایۂ دیوار نے مجھے

جب دی اماں نہ سایۂ دیوار نے مجھے
دامن میں لے لیا مرے سرکار نے مجھے

ٹھکرا دیا ہر ایک خریدار نے مجھے
عزت ہی دی مدینے کے بازار نے مجھے

صدقہ رسول کا کہ قیامت کی بھیڑ میں
آواز دی ہے رحمت غفار نے مجھے

خادم کو تیرے مل گیا مخدوم کا خطاب
میں کیا تھا کیا بنایا ترے پیار نے مجھے

دنیا وفائے حضرت صدیق دیکھ لے
بتلا دیا ہے ثور کے یہ غار نے مجھے

ہر منکر رسول کی خاطر بے قہر حق
سمجھا دیا عمر کی یہ تلوار نے مجھے

حکم نبی پہ دید و خزانے کی کنجیاں
دی یہ خبر عنی سے حیادار نے مجھے

ملتی ہے جس سے قربت حق قربت نبی
بخشا وہ علم حیدر کرار نے مجھے

کہہ سکتا کاش ادیب” کہ مجھ سے سنی ہے نعت

طیبہ بلا کے احمد مختار نے مجھے

 _______________

روح تشنہ کو مئے عشق سے سرشار کریں

 
روح تشنہ کو مئے عشق سے سرشار کریں
آؤ کچھ تذکرۂ احمد مختار کریں

آؤ پھر گنبد خضری کا تصور کر کے
اپنی خوابیدہ تمناؤں کو بیدار کریں

سامنے روضۂ اطہر تو ہے لیکن اے دل
نظریں آلودہ ہیں کس طرح سے دیدار کریں

تیرے ذروں نے ہیں چومے قدم پاک رسول
کیوں نہ اے ارضِ مدینہ تجھے ہم پیار کریں

جذبۂ عشق محمد ہے بیاں کے باہر
ہم کریں بھی تو کن الفاظ میں اظہار کریں

یوں تو میزاں بھی ہے پرسش بھی سبھی کچھ ہے مگر
ہم سمجھتے ہیں وہی ہوگا جو سر کار کریں

شاید اے گلشن طیبہ مری قسمت میں نہیں
وہ ہوائیں جو علاج دل بیمار کریں

دے یہ توفیق الہی کہ محمد کہہ کر
ہم شب و روز اسی نام کی تکرار کریں

لطف آجائے مدینے میں جو ہم جاکے ادیب
پیش سرکار کی خدمت میں یہ اشعار کریں

 _______________


جو دل کو طیبہ پہ کر کے نثار ناز کرے

 
جو دل کو طیبہ پہ کر کے نثار ناز کرے
نہ اس پہ کیوں نگہ کردگار ناز کرے


ہے کوئی خلق میں ذات محمدی کے سوا
کہ جس پہ صنعتِ پروردگار ناز کرے

جنوں نوازی کریں جب ہوائیں طیبہ کی
تو کیوں نہ پیرہن تار تار ناز کرے

وہ درد ہجر نبی کے سوا کچھ اور نہیں
کہ جس پہ میرا دل بیقرار ناز کرے

کہیں جواڑ کے مدینے تلک پہنچ جائے
تو اس عروج پہ میرا غبار ناز کرے

سدا بہار ہیں وہ پھول باغ طیبہ کے
پھبن پہ جن کی عروس بہار ناز کرے

ہے بیقراری کا ثمرہ جب التفات نبی
قرار کھو کے نہ کیوں بیقرار ناز کرے

خوشا نصیب دیار خلیل سے پھوٹی
وہ صبح جس پہ شب انتظار ناز کرے

الہی تیرے کرم سے ادیب” بن کے رہے
وہ راہی جس پہ نبی کا دیار ناز کرے

 _______________


حشر کے روز وہی سب سے نمایاں ہوگا

حشر کے روز وہی سب سے نمایاں ہوگا
دامن رحمت عالم میں جو پنہاں ہوگا

آئیں گے آقا تو یہ جوش بہاراں ہوگا
خار زاروں سے عیاں رنگ گلستاں ہوگا

حشر کی دھوپ سے بچنا بہت آساں ہوگا
ان کا جب سایۂ گیسوئے پریشاں ہوگا

جب کروں عرض کہ کیا درد کا درماں ہوگا
کاش سرکار یہ فرمادیں کہ ہاں ہاں ہوگا

تشنۂ دید ان آنکھوں کو مری لیتا جا
اے مدینے کے مسافر ترا احساں ہوگا

یہ سعادت تھی مگر قسمت ارضِ مکہ
منتظر ان کا تو ہر عالمِ امکاں ہوگا

ہر عمل سیرت سرکار کا آئینہ ہے
جو بھی دیکھے گا یہ آئینہ وہ حیراں ہوگا

جکی تسکین کا باعث ہو غم عشق نبی
مطمئن ہوگا وہ غم سے کہ پریشاں ھوگا

تو نے دیکھا ہی نہیں انکی عطا کا عالم
مانگ کر مانگنے والے تو پشیماں ہوگا و

عشق سرکار کا سرمایہ نہ اشکوں کے گہر
کوئی مجھ سا بھی نہیں بے سرو ساماں ہوگا

نا خدا سرور عالم ہیں تو پھر ڈرنا کیا
خود ہی طوفاں مری کشتی کا نگہباں ہوگا

عرض کرنا مرے سرکار سے اے باد صبا
کیا مرے دل کا بھی پورا کبھی ارماں ہو گا

کس قدر ہوتی ہے دشوار رہ حق کی تلاش
اس سے واقف تو دل بو ذر و سلماں ہوگا

اس گھڑی آقا ہی کام آئیں گے محشر میں ادیب”
خودترا سایہ بھی جب تجھ سے گریزاں ہوگا

 _______________


جہاں میں نورِ رسالت مآب آتا ہے


جہاں میں نورِ رسالت مآب آتا ہے

مٹے گی ظلمت شب آفتاب آتا ہے


بشکل پیکر رحمت خدا کی جانب سے

ستم کشوں کی فغاں کا جواب آتا ہے


نئے اصول و ضوابط حیات کو دینے

جہاں میں صاحب ام الکتاب آتا ہے


اب اپنی کشتِ تمنا بھی لہلہائے گی

برسنے خشک زمیں پر سحاب آتا ہے


چلا یہ آس لئے ہوں کہ پوچھ لیں آقا

یہ کون ہے جو بحال خراب آتا ہے


میں کیسے پیش کروں اپنا نامہ اعمال

خطا شعار ہوں آقا حجاب آتا ہے


ادیب ” ختم رسل کا تھا معجزه ورنہ

جبلتوں میں کہاں انقلاب آتا ہے 

 _______________


دیار طیبہ کے جانے والے رواں دواں جب نظر ہیں آئے

 
دیار طیبہ کے جانے والے رواں دواں جب نظر ہیں آئے
خیال وحشت نے کی جماہی جنوں کے جذبات تلملائے

چلا ہے جو زائر مدینہ تو ہم سے دامن ذرا بچائے
ہوائے احساس نارسی سے چراغ امید بجھ نہ جائے

سرور و مستی کی مجھ کو نعمت جومل گئی ہے تو چھن نہ جائے
میں عشق احمد میں کھو گیا ہوں خدا کرے اب نہ ہوش آئے

سبھی حضوری کی آرزو میں نہ جانے کب سے ہیں لو لگائے
ہے قابل رشک اس کی قسمت مدینے والا جسے بلائے

ہے تیرے ہاتھوں میں میرے مالک مری تمنا کی لاج رکھنا
مدینہ جب تک پہنچ نہ جاؤں مجھے پیام اجل نہ آئے

دیار انوار سرمدی کی تجلیوں سے یہ عرض کرنا
رہیں گے کب تک ہمارے دل پر ہجوم غم کے سیاہ سائے

تڑپتے جذبوں مچلتی آہوں نے ہے رسائی کی آس پائی
کہو کہ امید جھوم اٹھے کہو تمنا سے مسکرائے

دیار طیبہ کی آرزو میں ادیب ” ہم بھی تڑپ رہے ہیں
ہمیں بھی ہے حسرت حضوری کہو کہ اللہ راس لائے

 _______________


کوئی اصحاب سرکار سے پوچھ لے رکھتی ہے کیا نظر مصطفیٰ کی نظر


کوئی اصحاب سرکار سے پوچھ لے رکھتی ہے کیا نظر مصطفیٰ کی نظر

اسکو دنیا میں دیدار خالق ہوا پڑ گئی جس پہ خیر الوریٰ کی نظر


آپ مٹ جائیں گے سارے طوفانِ غم خود اٹھائیں گے سرکار چشم کرم

ڈوب جائے کوئی پھنس کے مجدھار میں دیکھ سکتی ہے کب نا خدا کی نظر


جب جہاں سارا مثل کف دست ہے پیش چشم شفیع دو عالم تو پھر

دیکھتی ہے میری حالت زار بھی عرش پیما حبیب خدا کی نظر


منزل عشق ہو جائیں گی آپ طے ہاں مگر عشق خیر الوریٰ شرط ہے

راہرو کو بھٹکنے کا خطرہ نہیں واقف راہ ہے رہنما کی نظر


کیوں نہ چمکیں زمانے کی پھر قسمتیں کیسے برسیں نہ پھر ہر طرف رحمتیں

خود خدا ناظر روئے محبوب ہے اور خدائی پہ ہے مصطفیٰ کی نظر


سن کے میری فغان دل مبتلا جب یہ فرمائیں گے تو ہے کیا چاہتا

میں کروں گا یہی عرض سرکار سے چاہئے بس تمھاری رضا کی نظر


کھینچ کر آنکھ میں روح بیچارگی تو ادیب” آج بن پیکر بیکسی

کچھ تعجب نہیں سبز گنبد سے جو دیکھ لیں وہ تری التجا کی نظر 

 _______________


حبیب حق کا ہو جس میں ظہور کیا کہنا

 

حبیب حق کا ہو جس میں ظہور کیا کہنا
وہ ایک لمحۂ کیف و سرور کیا کہنا

دلوں کے پاس نگاہوں سے دور کیا کہنا
مرے رسول کا غیب و حضور کیا کہنا

اس ایک محور حق ہی کے گرد پھرتے ہیں
تمام عالم ظلمات و نور کیا کہنا

لب کلیم و مسیحا پہ عظمتیں ان کی
انہیں کے حق میں کلام زبور کیا کہنا

ز فرش تا بہ سر عرش کوئی محفل ہو
حضور آپ ہیں صدر الصدور کیا کہنا

تمہارے قدموں میں جنت کی کنجیاں ہونگی
تمہارا مرتبہ روز نشور کیا کہنا

در رسول پہ دونوں کو سر رنگوں پایا
جنوں کا جوش خرد کا شعور کیا کہنا

زمانہ لائے گا کیا ایسی سادگی کی مثال
چٹائی فرش ، غذا میں کھجور کیا کہنا

نگاه رحمت عالم بھی جھوم جھوم اٹھی
ترا نصیب دل نا صبور کیا کہنا

کسی کو صدق ملا اور بنا کوئی فاروق
تمہاری مرحمتوں کا وفور کیا کہنا

جمال گنبد خضرا کا کیا بیاں ہو ” ادیب”
طواف میں ہے تجلئ طور کیا کہنا

 _______________


تعبیر چاہتا ہوں یہ دیکھا ہے خواب میں

تعبیر چاہتا ہوں یہ دیکھا ہے خواب میں
حاضر ہوں بارگاہ رسالت مآب میں

آخر رسول پاک کو آہی گیا ترس
کس درجہ تھی کشش مرے حال خراب میں

کونین اس اشاره انگشت پرنثار
جس نے شگاف ڈال دیا آفتاب میں

محشر میں اک نگاہِ رسالت بجھا گئی
جتنی بھری تھی آگ دل آفتاب میں

کونین سے اندیھروں کی چادر سمٹ گئی
چمکا جو آفتاب حراء تھا حجاب میں

لائی صبا مدینے سے پیغام انبساط
میری گزارشات الم کے جواب میں

وہ رحمت تمام ہیں کیا غم تجھے ” ادیب”
کب امتی کو دیکھ سکیں گے عذاب میں

 _______________


درخشاں نور خالق کا ستارا ہے مدینے میں

 
درخشاں نور خالق کا ستارا ہے مدینے میں
ہم ایسے بے سہاروں کا سہارا ہے مدینے میں

نہ جانے کس قیامت کا نظارہ ہے مدینے میں
گریبان نظر بھی پارہ پارہ ہے مدینے میں

کلیم اللہ جس کی جستجو میں طور تک پہنچے
وہی حسن الٰہی آشکارا ہے مدینے میں

الگ ہٹ فکرِ دنیا مجھ سے دامن چھوڑ دے میرا
کہ مجھ کو میرے آقا نے پکارا ہے مدینے میں

وہیں جا کر رکے گی کشتئ عمرِ رواں میری
مصیبت کے سمندر کا کنارا ہے مدینے میں

جہاں کے جبر سے مجبور ہو کر مضطرب رہ کر
یہاں ہم ہیں تو کیا دل تو ہمارا ہے مدینے میں

” ادیب” اس کو حیات عارضی کا ماحصل کہیے
وه لمحہ زندگی کا جو گزارا ہے مدینے میں

 _______________


Top Categories