madaarimedia

ربط ہو جائے جو پیدا بخدا طیبہ سے


ربط ہو جائے جو پیدا بخدا طیبہ سے

آج بھی ملتا ہے پیغام بقا طیبہ سے


نہ ہوئے پھر کبھی غربت پہ امارت کے ستم

مٹ گیا سلسلۂ جور و جفا طیبہ سے


امن عالم کا تصور بھی نہ تھا دنیا میں

گوش مخلوق نے یہ لفظ سنا طیبہ سے


اب نہیں پاس کی ظلمت کا ٹھکانہ دل میں

شمع امید نے پائی ہے ضیا طیبہ سے


تپش دل خلش درد یقین درمان

طالب عشق کو کیا کیا نہ ملاطیبہ سے


جسم سے جان بھی ایسے نہ نکلتی ہوگی

جیسے زائر کوئی ہوتا ہے جدا طیبہ سے


کوبکو ٹھوکریں کھانے کیلئے دنیا میں

کیوں پلٹ آئی تو اے باد صبا طیبہ سے


ہاتھ اٹھے تھے کہ یہ عرش سے آواز آئی

مانگنے والے تجھے ہو گا عطا طیبہ سے


اب بھلا ہوش میں کیوں آنے لگے دیوانے

آئی ہے گیسوئے احمد کی ہوا طیبہ سے


با ادب ہو کے بنے بوذر و سلمان و بلال

بے ادب جو تھے انھیں کچھ نہ ملاطیبہ سے


آئیں آفت زدہ دامان کرم میں آئیں

ائے ادیب ” آتی ہے پیہم یہ صدا طیبہ سے 

 _______________


مدینے میں تن خاکی اگر بے جاں نہیں ہوتا


مدینے میں تن خاکی اگر بے جاں نہیں ہوتا

تو ہم پر اے اجل تیرا کوئی احسان نہیں ہوتا


ذرا لے تو چلے مشاطئ تقدیر طیبہ میں

سمجھنا تیرا مشکل گیسوئے پیچاں نہیں ہوتا


وہاں پر ناخدائی کام آتی ہے محمد کی

جہاں طوفاں سے بچنے کا کوئی امکاں نہیں ہوتا


جہاں نے آپ کو دیکھا تو جانا ذات خالق کو

نہ ہوتے آپ تو اللہ کا عرفاں نہیں ہوتا


ہمہ دم ہے تصور میں جمالِ گنبد خضری

ہمارے دل کو احساس غم ہجراں نہیں ہوتا


دکھا دے راہ طیبہ تو مری آوارہ پائی کو

کرم اتنا بھی تجھ سے گردش دوراں نہیں ہوتا


وہ دل بیکار ہے اہل محبت کی نگاہوں میں

چھپا جس دل میں ان کے عشق کا پیکاں نہیں ہوتا


کرم فرمائیاں ان کی سیاہ کاروں پہ ہیں ورنہ

کسی نا کارا شئے کا کوئی بھی خواہاں نہیں ہوتا


غریق بحر غم ہوں پھر بھی صدقے عشق احمد کے

اب احساس ہلاکت خیزئ طوفاں نہیں ہوتا


یہ درس مصطفیٰ ہے مت بہاؤ ظالمو! اس کو

لہو انسانیت کا اس قدر ارزاں نہیں ہوتا


ہم ایسا وہ بشر ہوتا تو سدرہ حد آخر تھی

بشر بن کر کبھی وہ عرش پر مہماں نہیں ہوتا


سلاسل ٹوٹ جاتے اور بکھر جاتیں سبھی کڑیاں

در سر کار کا جو سلسلہ جنباں نہیں ہوتا


دعائیں دے جمال سرور کونین کو ورنہ

حسیں اس درجہ تو اے عالمِ امکاں نہیں ہوتا


جہاں میں صرف در بار رسالت ہے جہاں جا کر

کسی کو شکوہ کوتاہی داماں نہیں ہوتا


ہنسی آتی ہے تیری جرت بیجا پہ اے ناداں
کہ نعت مصطفی کہنا ” ادیب” آساں نہیں ہوتا 

 _______________


ہے جلوہ گر جو آئینہ ہے شانِ کبریائی کا


ہے جلوہ گر جو آئینہ ہے شانِ کبریائی کا

دل ناداں یہی موقعہ ہے قسمت آزمائی کا


یقیناً قعر دوزخ میں گرا دینے کو کافی ہے

تصور بھی نبی محترم سے بے وفائی کا


یہ ہیں مجنون و ساحر ذہن بوجہلی پکار اٹھا

ملا جب کوئی بھی پہلو نہ آقا میں برائی کا


مدینہ مل گیا مقصود ہستی پالیا میں نے

مجھے اب زندگی کیا خوف تیری کج ادائی کا


نظر آنے سے پہلے نقش پائے سرور عالم

مرے مالک جبیں کو حوصلہ دے جبہ سائی کا


ضرورت پل صراط و حشر میزاں کی نہ تھی کچھ بھی

مگر مقصود تھا اظہار شان کبریائی کا


نظر ہٹتی نہیں ہے اے جمال گنبد خضری

کوئی سیکھے تو بس تجھ سے طریقہ دلربائی کا


عذاب روح کہتے ہیں کسے مجسھے کوئی پوچھے

مری آنکھوں میں ہے منظر مدینے سے جدائی کا


نہیں آسان درک آیۂ قوسین او ادنی
ادیب ” اندازہ ہو کیسے بھلا ان کی رسائی کا 

 _______________


حاصل شوق حضوری نہیں حسرت کے سوا

 
حاصل شوق حضوری نہیں حسرت کے سوا
ہم اسے کیا کہیں محرومی قسمت کے سوا


ساری دنیا نے دیا کیا ہمیں نفرت کے سوا
صرف طیبہ ہے جہاں کچھ نہیں الفت کے سوا

قہر خالق کو کرم سے جو بدل سکتا ہے
ایسا کوئی بھی نہیں شاہ شفاعت کے سوا

منھ چھپائیں گے گنہگار کہاں حشر کے دن
حق کے محبوب ترے دامن رحمت کے سوا

امن عالم کی نئی راہ دکھانے والا
کس کا پیغام ہے پیغام رسالت کے سوا

منکر و ! مان لو سر کار کی عظمت ورنہ
کچھ نہ ہاتھ آئے گا محشر میں ندامت کے سوا

دیدۂ شوق کو دنیا ہو کہ سیر جنت
کچھ نہیں چاہئیے سرکار کی صورت کے سوا

ذات احمد سے عبارت ہے وجود کونین
سب ہیں افسانے اسی ایک حقیقت کے سوا

جائیں گے ہم سے گنہگار بھی جنت میں ادیب”
اور کیا کہئے اسے ان کی عنایت کے سوا

 _______________


انجام میرا تھا نہ حصار خطر میں ہے


انجام میرا تھا نہ حصار خطر میں ہے

ہر امتی شفیع امم کی نظر میں ہے


مکہ چلا جو اس نے یہ جانا سفر میں ہے

طیبہ گیا تو سمجھا کہ اپنے ہی گھر میں ہے


انسانیت کو جس سے نئی زندگی ملی

پنہاں وہ درس سیرت خیر البشر میں ہے


کہد و ادب سکھائیں نگاہوں کو اہلِ دل

عکس رخ حبیب جمال قمر میں ہے


اب راہ روک لے کوئی میری یہ کیا مجال

سودائے عشق سرور کونین سر میں ہے


ان کا جمال ہو دم آخر نگاہ میں

حسرت بس ایک زندگئی مختصر میں ہے


فیضان ہے نگاہ رسالت مآب کا

وه نور حق شناس جو چشم عمر میں ہے


سن لیتے ہیں وہ دل کے دھڑکنے کی بھی صدا
کتنا اثر ادیب ” فغان سحر میں ہے 

 _______________


میں نعت کہوں کب مجھے تمئیز سخن ہے

 میں نعت کہوں کب مجھے تمئیز سخن ہے

بس عشق نبی ہی مرا سر مایۂ فن ہے

پھولوں کی یہ دھرتی نہ ستاروں کا گگن ہے

طیبہ ہی فقط میری تمنا کا چمن ہے


کیا بات تری اے گل گلزارِ مدینہ

ہر غنچہ ترا نافۂ آہوئے چمن ہے


مفلس پس مردن بھی نہیں ان کے فدائی

مہتاب اڑھاتا انھیں چاندی کا کفن ہے


سورج تو نظر مجھ سے ملا ہی نہیں سکتا

آنکھوں میں مری مہر رسالت کی کرن ہے


اے صلی علیٰ ذکر طبیب ازلی کا

دل شعلہ بداماں ہے نہ سینے میں جلن ہے


رکھ دل میں حفاظت سے یہ داغ غم احمد

بازار وفا میں اسی سکے کا چلن ہے


حیران ہوں کیا تحفہ کروں پیش میں آقا

جاں دینا تو عشاق کی اک رسم کہن ہے


بیکار تو ہوتا ہے ادیب ” اتنا ہراساں

سرکار ہیں واقف جو ترے دلکی لگن ہے

 _______________


تری رفعتوں کو سمجھ سکے یہ کہاں کسی کی مجال ہے

 تری رفعتوں کو سمجھ سکے یہ کہاں کسی کی مجال ہے
ترے قرب حق کا شعور بھی پئے جبرئیل محال ہے

نہ یہ بات حسن طلب کی ہے نہ یہ آرزو کا کمال ہے

یہ انھیں کی نسبت خاص ہے کہ نہ غم نہ فکر مال ہے


زہے عشق سرور انبیاء یہ نوازشات کی انتہا

وہ ہے مصطفیٰ سے قریب تر جو اسیر زلف ہلال ہے


تو رؤف ہے تو رحیم ہے پئے دشمناں بھی کریم ہے

تو کمال خلق عظیم ہے تو خود آپ اپنی مثال ہے


جو ورود ذات نبی ہوا تو حقیقتوں سے حجاب اٹھا

تھا یہ پہلے ذہن کا فیصلہ کہ جہاں طلسم خیال ہے


ترے فقر میں ہے وہ دلبری کہ نثار تجھ پہ ہے سروری

جھکی جس کے قدموں پہ قیصری وہ تراہی جاہ و جلال ہے


تری انگلیوں کا یہ بانکپن کہ ہیں دستۂ گل پنجتن

ہے تراشانا خن پاک کا جو فلک پہ شکل ہلال ہے


وہ جوار خالق دو جہاں یہ دیار شافع عاصیاں

وہاں کبریا کا جلال ہے یہاں مصطفیٰ کا جمال ہے


ہے ادیب” خاک بسر مگر یہ ہے شان ان کے غلام کی

نہ جھکائے ہے کسی در پہ سر نہ اٹھائے دست سوال ہے

 _______________


آپ ہیں وجہ خلقت آدم محسن انساں رحمت عالم

 آپ ہیں وجہ خلقت آدم محسن انساں رحمت عالم
شکل بشر میں نور مجسم محسن انساں رحمت عالم

ذات و صفات خالق اکبر اپنے حصار ذہن کے باہر

آپ صفات و ذات کے محرم محسن انساں رحمت عالم


آپ نے دی اگلوں کی شہادت آپ پر نازاں شانِ صداقت

آپ گواہ عصمت مریم محسن انساں رحمت عالم


خلق مجسم رحم کے پیکر امی لیکن علم کے مصدر

منزل حق کے ہادئ اکرم محسن انساں رحمت عالم


چشم کرم ہے رحمت باری قہر الہی ہے بیزاری

آپ کے بس میں خلد و جہنم محسنِ انسان رحمت عالم


مرضئ خالق آپ کی مرضی یہ منصب رکھتا نہیں کوئی

آپ کہیں تو حشر ہو قائم محسن انساں رحمت عالم


بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملایا حسنِ عمل سے اپنے مٹایا

آپ نے فرق شعلہ و شبنم محسن انساں رحمت عالم


خاک قدم معراج ہماری آپ ہی رکھئیے لاج ہماری

کہتی ہے دنیا آپ کے ہیں ہم محسن انساں رحمت عالم


ہوگا ادیب ” ان سانہ ہوا ہے قرآں میں خالق نے کہا ہے

آپ مؤخر آپ مقدم محسن انساں رحمت عالم

 _______________


جلوہ ذات محمد سے شناسائی ہو

 جلوہ ذات محمد سے شناسائی ہو
میری آنکھوں میں جو صدیق کی بینائی ہو

حسن تخلیق کا شہکار وہ کیسا ہوگا

حق نے جس کے رخ و گیسو کی قسم کھائی ہو


ذات خالق نے کیا اسلئے سائے کو جدا

میرے محبوب کے پیکر میں بھی یکتائی ہو


شمع حسان سے روشن ہوں مرے دل کے چراغ

ان کی جانب سے اگر حوصلہ افزائی ہو


ہم سے مہجورِ مدینہ پہ کرم تو دیکھو

درد بھی ہو تو بہ اندازِ شکیبائی ہو


یہ تمنا کبھی اے کاش حقیقت بنجائے

ہم مدینے میں ہوں رحمت کی گھٹا چھائی ہو


سوز دل قلب اویس قرنی سے مانگو

آتش عشق اگر سینے میں کجلائی ہو


ہم غریبوں کے ہیں غمخوار مدینے والے

اے جہاں والو ! سمجھ کر ستم آرائی ہو


حق کے محبوب ہیں رکھ لیں گے بھرم حشر کے دن

ان کے ہوتے مری کیوں حشر میں رسوائی ہو


چل تجھے یاد کیا ہے ترے آقانے ادیب”

کاش پیغام یہ طیبہ سے صبا لائی ہو

 _______________


تجلی روکش خلد بریں معلوم ہوتی ہے

 تجلی روکش خلد بریں معلوم ہوتی ہے
ہمیں تو یہ مدینے کی زمیں معلوم ہوتی ہے

تصور ذہن میں ہے ہجر طیبہ کا کسک دل میں

خلش ہوتی کہیں ہے اور کہیں معلوم ہوتی ہے


گئے بھی آئے بھی آقا مگر گردش زمانے کی

جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے


ترے جلووں کے آگے اے جمالِ گنبد خضری

خمیده چاند تاروں کی جبیں معلوم ہوتی ہے


نہیں ہے وجہ موجیں پر سکوں ہیں بحر ہستی کی

محبت مصطفیٰ کی تہ نشیں معلوم ہوتی ہے


رسول و انبیاء سب ہیں مگر میدان محشر میں

نمایاں شان ختم المرسلیں معلوم ہوتی ہے


دو عالم پر خدا کی رحمت و انعام کی برکھا

بشكل رحمت اللعالمیں معلوم ہوتی ہے


محبت سرور کونین کی عین عبادت ہے

یہی بنیاد ایمان و یقیں معلوم ہوتی ہے


رہی اور آج بھی ہے جلوہ گاہ سرور عالم

یہ دنیا اس لئے ہم کو حسیں معلوم ہوتی ہے


نہ ڈس لے اے ادیب ” اک دن تمنائے حضوری کو

یہ مایوسی تو مارِ آستیں معلوم ہوتی ہے

 _______________


Top Categories