madaarimedia

نظر حضور کی اٹھی کس اہتمام کے بعد

 نظر حضور کی اٹھی کس اہتمام کے بعد
کمال ہوش بھی پایا حصول جام کے بعد

فراق طیبہ میں عالم عجیب ہوتا ہے

طلوع صبح سے پہلے غروب شام کے بعد


دیار ہند میں کب تک پھروں میں آوارہ

مرے حضور سے کہنا صبا سلام کے بعد


نجات قبر کی پرسش سے مل گئی مجھ کو

سوال ہی نہ اٹھا پھر نبی کے نام کے بعد


مقام رفعت محبوب کوئی کیا جانے

الوہیت کے ہیں جلوے اسی مقام کے بعد


سمجھ رہے ہیں حروف مقطعات حضور

ہیں جبرائیل بھی حیران اس پیام کے بعد


حرم صفات بنایا ہے خانہ دشمن

دلوں کو جیتا ہے آقا نے اذن عام کے بعد


خموش اشک بہاتے ہیں عاشقانِ نبی

مجال آہ کہاں حکم احترام کے بعد


پہنچ سکے نہ ادب ناشناس طیبہ تک

چلے تو بیٹھ گئے تھک کے چند گام کے بعد


نشان راہ کا اصحاب مصطفیٰ سے ملا

ستارے چمکے غروب مہ تمام کے بعد


یہ درس عدل و مساوات کوئی دیکھے تو

عمر سواری پہ بیٹھے مگر غلام کے بعد


مدینہ چل جو طلب ہے سکون دل کی ادیب”

یہ نعمتیں تو ملیں گی وہیں قیام کے بعد

 _______________


خدا نے آپ کو شیریں مقال رکھا ہے


خدا نے آپ کو شیریں مقال رکھا ہے
جواب تلخئ ماضی و حال رکھا ہے

اس آرزو میں کہ بس جائے آکے یاد حضور

ہر اک خیال کو دل سے نکال رکھا ہے


وہ صرف ذات محمد ہے جسکو خالق نے

ورائے وہم و گمان و خیال رکھا ہے


عطا تو کر دیا حق نے انہیں لباس بشر

ادا ادا سے مگر بے مثال رکھا ہے


یہ سنگ ریزے نہیں ہیں دیا ر طیبہ میں

قدم قدم پہ دل پائمال رکھا ہے


ہے سلسلہ ترا اے درد عشق طیبہ سے

اسی لئے مجھے سینے میں پال رکھا ہے


حضور گیسوئے رحمت جو ہیں بکھیرے ہوئے

یہ پردہ میرے گناہوں پر ڈال رکھا ہے


کہاں یہ فرش زمیں اور کہاں وہ عرشِ بریں

حضور نے مجھے حیرت میں ڈال رکھا ہے


چلے ادیب ” ہیں شہر نبی سے دیوانے
دلوں کو ہاتھوں سے لیکن سنبھال رکھا ہے 

 _______________


طیبہ دربار چلیں طیبہ دربار چلیں

 طیبہ دربار چلیں طیبہ دربار چلیں
آوری آؤ سکھی ساجن کے دوار چلیں

خوشیو سے مہکائیں طیبہ کی گلیاں

مدحت کے غنچے ہوں نعتوں کی کلیاں

خدمت میں لیکے درودوں کے ہار چلیں


طیبہ دربار چلیں طیبہ دربار چلیں


ہر ذرے ذرے پہ آنکھیں بچھائیں

اپنی جبینوں سے سجدے لٹائیں

پلکوں سے طیبہ کی گلیاں بہار چلیں


طیبہ در بار چلیں طیبہ دربار چلیں


تاروں میں ہوتے ہیں باہم اشارے

دوری سے کب تک کرینگے نظارے

آقا کے روضہ پر تن من کو وار چلیں


طیبہ دربار چلیں طیبہ دربار چلیں

 _______________


کونین کا مختار نہ ہوگا نہ ہوا ہے

کونین کا مختار نہ ہوگا نہ ہوا ہے

مثل شہ ابرار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


نازاں ہے مجھے بخش کے اللہ کی رحمت

مجھ سا بھی گنہگار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


جب تک نہ ملیں دامنِ رحمت کی ہوائیں

دیوانہ تو ہشیار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


دنیا ہو کہ عقبی مرے سرکار کا جیسا

ہر ایک کا غمخوار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


کافی ہے مرے دل کے لئے عشق محمد

دنیا سے مجھے پیار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


ٹوٹے ہوئے دل کا مرے آقا کے علاوہ

کوئی بھی خریدار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


دنیا میں غریبوں کا کوئی چاہنے والا

جز احمد مختار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


معلوم ہے بھر دیتے ہیں جھولی مرے آقا

مایوس دل زار نہ ہوگا نہ ہوا ہے


سرکار ادیب ” اپنے ہیں کونین کی رحمت
اس بات سے انکار نہ ہوگا نہ ہوا ہے 

 _______________


ہم گنہگاروں کے حق میں تھی وہ نعمات کی رات


ہم گنہگاروں کے حق میں تھی وہ نعمات کی رات

اپنے محبوب سے خالق کی ملاقات کی رات


کیسے ہوتی تھی بسر محسن ہر ذات کی رات

پوچھتی ہے مرے افکار و خیالات کی رات


بے حجابانہ وہ بڑھتے ہوئے آقا کے قدم

اور اٹھتے ہوئے پیہم وہ حجابات کی رات


تھی ابو بکر کو صدیق بنانے والی

وہ جو بوجہل کو تھی سحر طلسمات کی رات


معترف کون نہیں رحمت عالم تیرا

دن دعاؤں کا ہے شاہد تو مناجات کی رات


یاد ہے اب بھی زمانے کو وہ عزم ہجرت

وہ ہر اک لمحہ بدلتے ہوئے حالات کی رات


ہر طرف سرور کونین کے انوار جمیل

مجھ سے مانگے ہے مچلتے ہوئے جذبات کی رات


ہاں ضیا بار ہو اے مہر رسالت کہ ہمیں

پھر ہے ہر سمت سے گھیرے ہوئے ظلمات کی رات


فرش تا عرش ہے اک سلسلہ نور ادیب “
کتنی پیاری ہے مدینے کے مضافات کی رات 

 _______________


نعل حضور تاج سر آسماں بنی

 نعل حضور تاج سر آسماں بنی
قدموں کی دھول اڑ کے مہ و کہکشاں بنی

تیری بلندیوں کی حدیں بھی نہ چھوسکی

تخئل لاکھ گردِ پس کارواں بنی


اس رحمت تمام پر قربان جائیے

جو دشمنوں کو کعبہ امن و اماں بنی


تو پیکر حسین میں جب رونما ہوا

کتنی عظیم کتنی حسیں داستان بنی


جب بھی بنے عذاب مراحل حیات کے

ان ہی کی یاد باعث آرام جاں بنی


عرفان تیری ذات کا کیا کر سکے کوئی

جو منھ سے کہدیا وہ خدا کی زباں بنی


ہر راہرو کو سیرت خیر الوریٰ ادیب

منزل میں کامیابی کا روشن نشاں بنی

 _______________


دیکھو یہ گلی کوچے یہ بام اور یہ در تو دیکھو

 دیکھو یہ گلی کوچے یہ بام اور یہ در تو دیکھو
خلد قربان ہے آقا کا نگر تو دیکھو

بے وضو جرم ہے دیدار جمال خضری

دیکھنے والو! سلیقہ ہو اگر تو دیکھو


اب نہیں آنکھوں میں کچھ نور مجسم کے سوا

آؤ لوگو! مرا معیار نظر تو دیکھو


کھنچ گیا ہو گا ہر اک منظر نور آنکھوں میں

آنے والو! در آقا سے ادھر تو دیکھو


بن گئی منزل قوسین گزر گاه نبی

ذہن حیران ہے امکان بشر تو دیکھو


لیکے پہونچی مری کاواک رویطیبہ میں

ایک گم گشتہ کا انداز سفر تو دیکھو


ابر رحمت ہے اٹھا جھوم کے طیبہ سے ادیب

ہم سے مجبور کی آہوں کا اثر تو دیکھو

 _______________


فغان عشق نبی بے اثر نہیں ہوتی

فغان عشق نبی بے اثر نہیں ہوتی

اذاں بلال نہ دیں تو سحر نہیں ہوتی


مرے حضور کی شانِ کرم کا کیا کہنا

وہ بھیک دیتے ہیں لیکن خبر نہیں ہوتی


یہ اپنے نور کا مرکز تلاش کرتے ہیں

فضول گردش شمس و قمر نہیں ہوتی


زمانے بھر میں مدینے کی وادیوں کے سوا

کہیں تشفئی ذوق نظر نہیں ہوتی


سنیں گے مدح نبی ہر زباں سے تاب ابد

یہ وہ کہانی ہے جو مختصر نہیں ہوتی


لب حضور سے نکلی ہوئی جو بات نہ ہو

زمانہ لاکھ کہے معتبر نہیں ہوتی


کرم حضور کا جب تک کہ رہبری نہ کرے


کوئی بھی منزلِ دشوار سر نہیں ہوتی


بتارہی ہے ابو جہل کی یہ بے بصری

تجلیوں کی امیں ہر نظر نہیں ہوتی


گزر رہا ہے ہر اک لمحہ حادثے کی طرح

حضور ہند میں اب تو بسر نہیں ہوتی


وہ دشمنان رسالت کی بزم ہوتی ہے

جہاں پہ عظمت خیر البشر نہیں ہوتی


ادیب ” یہ بھی کمالِ ادب شناسی ہے
لہو لہو ہے جگر آنکھ تر نہیں ہوتی 

 _______________


مقام قرب کیا ہے اور کیا شان محمد ہے

 

مقام قرب کیا ہے اور کیا شان محمد ہے
و ہی بتلائے گا جو مرتبہ دانِ محمد ہے

وہی فرمان حق بھی ہے جو فرمان محمد ہے
سمجھئے کس قدر دشوار عرفان محمد ہے

دیا درس مکمل جس نے ہم کو دین فطرت کا
قسم اللہ کی وہ صرف قرآن محمد ہے

پروں سے جھاڑتا رہتا ہے ان کے آستانے کو
نہ ہو جبریل کیوں نازاں کہ دربان محمد ہے

مذاق جستجو نے لاتعین میں جہت پائی
شعور و فکر انساں پر صداحسان محمد ہے

مدینہ کیا وہی ہیں خانہ کو نین کے مالک
جہاں میں جو بھی ہے مخلوق مہمان محمد ہے

جلال مہر کی محشر میں محشر خیزیاں توبہ
وہی محفوظ ہے جو زیر دامانِ محمد ہے

نہ خوف تشنگی ہوگا ادیب ” ان کے غلاموں کو
کہ جاری حشر میں دریائے فیضانِ محمد ہے

 _______________


بس ایک سہارے پر سر حشر چلے ہیں

 

بس ایک سہارے پر سر حشر چلے ہیں
عاصی ہیں مگر دامن احمد کے تلے ہیں

کرتی ہیں نہیں پیار میری آبلہ پائی
وه خار جو صحراۓ مدینہ میں پلے ہیں

ہوگا نہ اثر ہم پر تیرا آتش دوزخ 
اک عمر مدینے کی جدائی میں جلے ہیں 

ان کو نہیں اندیشہ تاریکی مرقد
جو خاک طیبہ کو چہروں پر ملے ہیں

ہونے نہ ہمیں دیں گے وہ رسوا سرمحشر
نسبت تو انہیں سے ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں

صدیق ہوں فاروق کہ عثمان علی ہوں
انہیں سبھی قرآن کے سانچے میں ڈھلے ہیں

 جب دین پہ آنچ آئی تو صحَابائے نبی نے
 رکھے ام شمشیر پر خود اپنے گلے ہیں

اللہ رے ادیب آمد سرکار دو عالم
سب خشک نہالان چمن پھولے پہلے ہیں 

_______________

Top Categories