حاجت نہیں ہے مجھ کو کسی تاجدار کی
میرے لیے بہت ہے غلامی مدار کی
نسبت جو مل گئی ہمیں زندہ مدار کی
یہ تو عطائے خاص ہے پروردگار کی
تقدیر کہکشاں کی طرح جگمگا اٹھی
چومی ہے جب سے خاک تیرے رہگزار کی
ٹھوکر سے تو نے بخشی ہے مردوں کو زندگی
کیا بات ہے مدار تیرے اختیار کی
طوفان خود ہی کشتی کنارے لگا گیا
گونجی صدا فضاؤں میں جب دم مدار کی
اہل طلب کے واسطے ہوتی ہیں کیمیا
قطب المدار خاک تمہارے دیار کی
جس نے تمام عمر نہ کھایا نہ کچھ پیا
محضر عجیب شان ہے اس روزہ دار کی