madaarimedia

یہ جو بارگاہ رسول سے کوئی دور کوئی قریب ہے

 یہ جو بارگاہ رسول سے کوئی دور کوئی قریب ہے

یہ سب اپنی اپنی ہیں قسمتیں یہ سب اپنا اپنا نصیب ہے


میں مریض عشق رسول ہوں مجھے چارہ ساز سے کیا غرض

مجھے درد جس نے عطا کیا وہی درد دل کا طبیب ہے


جو عمر مدینے سے دے ندا سنے کس طرح سے نہ ساریہ

کہ یہ اس عظیم کی ہے صدا جو در نبی کا خطیب ہے


وہ اخوتوں کا سبق دیا کہ جہان سارا پکار اٹھا

نہ ہے شاہ کوئی نہ ہے گدا نہ امیر ہے نہ غریب ہے


وہ جو بے کسوں پہ ہے مہرباں ہے وہی تو باعث انس و جاں

ہے اسی کا صدقہ یہ دو جہاں وہ خدا کا پیارا حبیب ہے


ہے انہیں کے نور سے مفتخر بہ خدا جبین ابو البشر

ہو کوئی رسول کہ ہو نبی میرے مصطفیٰ کا نقیب ہے


کبھی جلوہ فرما ہیں فرش پر کبھی مہمان ہیں عرش پر

کبھی لا مکاں پہ ہیں جلوہ گر یہ ادا نبی کی عجیب ہے


چلو محضر ان کی پناہ میں تو جنوں کو چھوڑ دو راہ میں

رہے احترام نگاہ میں کہ وہ بارگاہ حبیب ہے
 ——

یہ کہتے ہیں مری آنکھوں کے آنسو پاؤں کے چھالے

 یہ کہتے ہیں مری آنکھوں کے آنسو پاؤں کے چھالے

بہار گلشن طیبہ دکھادے رحمتوں والے


لباس اپنا ہی کیا جس کو مذاق عطر بیزی ہو

پسینے سے رسول اللہ کے نسلوں کو مہکالے


صحابہ اس طرح حلقہ کئے حاضر ہیں خدمت میں

کہ جیسے چاند کو گھیرے ہوئے ہیں نور کے ہالے


نہیں اب منکروں کو منہ چھپانے کی جگہ کوئی

رسول اللہ لے کر آرہے ہیں اپنے گھر والے


فراق ارض طیبہ میں تڑپتے ہو گئی مدت

اثر لاتے ہیں دیکھیں کب دکھے دل کے مرے نالے


تجھے پھر زندگی کی الجھنیں موقع نہ دیں شاید

مقدر کا ہر الجھا مسئلہ طیبہ میں سلجھالے


بلائیں گے تجھے اب کے برس آقا مدینے میں

دل مضطر کو محضر اس طرح تو اپنے سمجھا لے
 ——

ہجر طیبہ میں جب کہا طیبہ

 ہجر طیبہ میں جب کہا طیبہ

کھینچ کے انکھوں میں آگیا طیبہ


ہیچ ہے پھر ہر ایک نظارہ

بس دکھا دے مجھے خدا طیبہ


دل کو کہہ کہہ کے یہ تسلی دی

دیکھ ناداں وہ آگیا طیبہ


اور ہیں جن کے ہیں سہارے اور

ہے فقط اپنا آسرا طیبہ


باغ جنت نہ چاہیے مجھ کو

راس آئی تیری فضا طیبہ


کیوں پریشان ہو اے چارہ گرو

ہر مرض کی ہے جب دوا طیبہ


دلکشی منظروں کی ختم ہوئی

دل میں جب سے سما گیا طیبہ


دونوں ہیں مرکز نگاہ جنوں

دل نشیں کعبہ دل ربا طیبہ


ہے ہر اک دل کی آرزو جنت

ہے میرے دل کی التجا طیبہ


تیری جنت میں جی نہیں لگتا

چلا رضوان میں چلا طیبہ


ہائے کر کے میں رہ گیا محضر

جب چلا کوئی قافلہ طیبہ
 ——

جبیں میں سجدے چھپائے در نبی کے لئے

 جبیں میں سجدے چھپائے در نبی کے لئے

جنون شوق ہے بے تاب بندگی کے لئے


شب فراق مدینہ میں ظلمتیں کیسی

دئے جلائے ہیں پلکوں پہ روشنی کے لئے


در رسول پہ تخصیص خاص و عام نہیں

مرے حضور ہیں رحمت ہر آدمی کے لئے


لہو لہان ہیں طائف میں رحمت کونین

دعا ہے پھر بھی لبوں پر ہر امتی کے لئے


رسول پاک کو کاندھوں پہ لے چلے صدیق

عروج رکھا تھا حق نے یہ آپ ہی کے لئے


دعائیں مانگ کہ مل جائے دل کو یہ نعمت

غم رسول ضروری ہے زندگی کے لئے


خلوص دل سے کرو ذکر مصطفیٰ محضر

ہر اضطراب میں تسکین دائمی کے لئے
 ——

جہاں قرب اولیاء ہے جہاں الفت نبی ہے

 جہاں قرب اولیاء ہے جہاں الفت نبی ہے

وہاں کیف زندگی ہے وہاں لطف بندگی ہے


یہ جو عشق مصطفیٰ میں ملی مجھ کو بے خودی ہے

ہے یہی میری عبادت یہی میری بندگی ہے


میری زندگی میں زینت میری قبر میں ہے رونق

غم مصطفی سلامت میرے پاس کیا کمی ہے


نہ جہاں میں کوئی باقی تھا وقار آدمیت

یہ حضور کا کرم ہے کہ وقار آدمی ہے


میں غلام مصطفیٰ ہوں میں مدار کا ہوں خادم

مرے اک طرف سمندر مرے اک طرف ندی ہے
 ——

جب کہ قرآن کی تفسیر ہے سیرت تیری

 جب کہ قرآن کی تفسیر ہے سیرت تیری

کیوں نہ اللہ کی طاعت ہو اطاعت تیری


تیرے سائے سے نہ میں گنبد خضری ہٹتا

میری قسمت میں جو ہوتی کہیں قربت تیری


اک گنہگار کا دل اور تیرے محبوب کی یاد

واقعی ہے مرے اللہ عنایت تیری


آسماں ہو کہ زمیں ہو کہ سر عرش بریں

میرے آقا ہے ہر اک شے پر حکومت تیری


تیرے دل میں ہے اگر عشق محمد محضر

تو خدا تیرا نبی تیرے ہیں جنت تیری
 ——

عشق احمد میں اسیر غم ہجراں ہوکر

 عشق احمد میں اسیر غم ہجراں ہوکر

بیٹھا غربت میں ہوں فردوس بداماں ہوکر


میرے آقا نے کئے چاند کے جب دو ٹکڑے

مشرکیں ره گئے انگشت بدنداں ہوکر


دیکھنا حشر میں چھا جائیں گے رحمت بنکر

گیسوئے احمد مختار پریشان ہو کر


جب کوئی جاتا نظر آیا مدینے کی طرف

رہ گیا دل میرا مجبور و حراساں ہوکر


چاند سورج تو اشاروں پہ محمد کے چلیں

ہائے وہ لوگ جو جھک پائے نہ انساں ہوکر

 ——

مونس و ہمدرد عالم ہیں مرے پیارے نبی

 مونس و ہمدرد عالم ہیں مرے پیارے نبی

مرحبا کتنے مکرم ہیں مرے پیارے نبی


منصب محبوبیت پہ کوئی بھی فائض نہیں

سارے نبیوں میں معظم ہیں مرے پیارے نبی


اے زمانے والو مجھ کو بے سہارا مت کہو

میرے مونس میرے ہمدم ہیں مرے پیارے نبی


سنگ ریزے بول اٹھے ہاتھ میں بوجہل کے

عظمتوں والے ہیں اعظم ہیں مرے پیارے نبی


آپ کی سیرت ہی کافی ہے تسلی کے لئے

غم نہیں جو سیکڑوں غم ہیں مرے پیارے نبی


کوئی ڈھونڈے بھی تو پائے آپ کا سایہ کہاں

آپ تو نور مجسم ہیں مرے پیارے نبی


خلد میں جانے سے محضر کون روکے گا مجھے

جب شفیع ہر دو عالم ہیں مرے پیارے نبی
 ——

علاج ہر بلائے غم ہیں کملی اوڑھنے والے

 علاج ہر بلائے غم ہیں کملی اوڑھنے والے

مرے مونس مرے مرے ہمدم ہیں کملی اوڑھنے والے


کرم کی اک نظر کر دیجئے صدقہ نواسوں کا

ستم دنیا کے اب پیہم ہیں کملی اوڑھنے والے


ہوئے ہیں منعکس حسن وقبا کے زاوئے جس میں

وہی آئینہ عالم ہیں کملی اوڑھنے والے


ز آدم تا بعیسی ہر نبی نے یہ شہادت دی

خدا کے بعد بس اعظم ہیں کملی اوڑھنے والے


اسی در پر بلا لیجے خدا را اب تو محضر کو

جہاں سب کی جبینیں خم ہیں کملی اوڑھنے والے
 ——

ہر اک نبی نے ان کا کیا احترام ہے

 ہر اک نبی نے ان کا کیا احترام ہے

کتنا بلند میرے نبی کا مقام ہے


منکر نکیر کر نہ سکے پھر کوئی سوال

پایا جو میرے لب پہ محمد کا نام ہے


ابھرے جو آفتاب تو حیرت کی بات کیا

ہاتھوں میں ان کے دونوں جہاں کا نظام ہے


میں پڑھ رہا ہوں نعت نبی اور بزم میں

جاری ہر ایک لب پہ درود و سلام ہے


انوار صبح ہوتے ہیں سو جان سے فدا

کتنی حسین ارضِ مدینہ کی شام ہے


اے گردش زمانہ نہ محضر سے تو الجھ

معلوم ہے تجھے یہ نبی کا غلام ہے
 ——

Top Categories