madaarimedia

نہیں دنیا میں ہے کوئی ہمارا یا رسول اللہ

 نہیں دنیا میں ہے کوئی ہمارا یا رسول اللہ

سہارا یا رسول اللہ سہارا یا رسول الله


ہے گردش میں مقدر کا ستارا یا رسول اللہ

بس اک نظر کرم ہم پر خدا را یا رسول الله


دیا ہے آپ نے اس کو سہارا یا رسول اللہ

کسی نے آپ کو جس دم پکارا یا رسول اللہ


مدینے کی طرف جاتا ہوا جب کوئی ملتا ہے

تڑپتا ہے دل بے کس ہمارا یا رسول الله


ہوئی سایہ فگن ہے اس کے سر پر رحمت باری

قیامت میں تمہیں جس نے پکارا یا رسول اللہ


میسر ہو کبھی سر کار یہ دل کی تمنا ہے

نظر کو آپ کے در کا نظارہ یا رسول اللہ


ہے محضر ہند میں اور آپ ہیں گلزار طیبہ میں

کہاں تک دل کرے اس کو گوارا یا رسول اللہ
 ——

روح کونین ہے قربان مدینے والے

 روح کونین ہے قربان مدینے والے

مرحبا کتنے ہیں ذیشان مدینے والے


رفعت اوج ہر امکان مدینے والے

حاصل صنعت رحمان مدینے والے


میں بھی پہنچوں کبھی طیبہ میں بھکاری بن کر

میرے دل میں ہے یہ ارمان مدینے والے


کس تحمل سے سر عرش بریں پہنچے ہیں

بن کے اللہ کے مہمان مدینے والے


میری جانب بھی کبھی اٹھے عنایت کی نظر

میری مشکل بھی ہو آسان مدینے والے


سیل طوفان حوادث کا ہمیں کیا خطرہ

جب ہمارے ہیں نگہبان مدینے والے


مدحت پاک میں دے اپنی زباں کو جنبش

آدمی کا نہیں امکان مدینے والے


رحمتیں آپ نے برسائیں گنہگاروں پر

آپ کا کتنا ہے احسان مدینے والے


مطمئن دل ہے مرا روزِ جزا سے محضر

میری بخشش کے ہیں سامان مدینے والے
 ——

کتنا کرم ہے دیکھیے مجھ پر حضور کا

 کتنا کرم ہے دیکھیے مجھ پر حضور کا
مشہور میں غلام ہوں گھر گھر حضور کا

محفوظ وہ رہے گا قیامت کی دھوپ سے

دامن رہے گا جس کے بھی سر پر حضور کا


اس بات کا کلام الہی گواہ ہے

ہوگا نہ ہو سکا کوئی ہمسر حضور کا


چشم تصورات کے قربان جائیے

روضہ ہے میرے سینے کے اندر حضور کا


آقا اگر بلائیں تو ہو حاضری نصیب

ہر چند یہ غلام ہے بے زر حضور کا


دو نیم ماہتاب اشارے میں افتاب

اور کرتے ورد کلمہ ہیں پتھر حضور کا


جب جا کے لامکاں سے آئے مکان میں

ہلتی تھی کنڈی گرم تھا بستر حضور کا


چومیں قدم نہ کیسے دو عالم کی رفعتیں

ادنی سا اک غلام ہے محضر حضور کا
 ——

مے نوش ہوں ہے کتنے قرینے کی آرزو

 مے نوش ہوں ہے کتنے قرینے کی آرزو

میخانۂ نبی سے ہے پینے کی آرزو


اس عاشق رسول کی نسلیں مہک اٹھیں

تھی جس کے دل میں ان کے پسینے کی آرزو


جب سے رسول پاک نے ہیں رکھ دئیے قدم

جنت بھی کر رہی ہے مدینے کی آرزو


کافی ہے مرے دل کے لئے عشق مصطفیٰ

کیا پوچھتے ہو کیسے ہے جینے کی آرزو


آنکھوں کے سامنے ہے سمندر گناہ کا

رکھتا ہوں پنجتن کے سفینے کی آرزو


اک سمت میرا ذہن ہے اک سمت میرا دل

مکے کی ہے تلاش مدینے کی آرزو


یوں دل کو عشق سرور عالم کی ہے طلب

جیسے کرے انگوٹھی نگینے کی آرزو


شاید کیا ہے یاد دیار رسول نے

بے چین کر رہی ہے مدینے کی آرزو


بو جہل چاہتا تھا نہ ہو دین کا فروغ

پوری نہ ہوسکی یہ کمینے کی آرزو


قطب المدار طیبہ سے جولے کے آئے ہیں

محضر ہے مجھ کو ایسے دفینے کی آرزو
 ——

کب تک یہ کہہ کر ہم آقا اپنا دل بہہ لائیں گے

کب تک یہ کہہ کر ہم آقا اپنا دل بہہ لائیں گے

اب کے امیدیں راس آئیں گی اب کی مدینے جائیں گے


عظمت آقا کے سب منکر آگ میں ڈالے جائیں گے

جو ہیں وفاداران رسالت وہ کوثر چھلکا ئیں گے


کیسی تپش اور کیسی گرمی منہ کو چھپائے گا سورج بھی

سر پہ گنہگاروں کے وہ گیسو حشر میں جب لہرائیں گے


لگ جائے گا پار سفینہ ڈوبنے والے وہ ہے مدینہ

جب ان کی تو دے گا دہائی طوفاں خود کترائیں گے


کیسی دوری کیا مہجوری دیں گے جب آقا اذن حضوری

پہنچیں گے ہم اڑ کے مدینہ ایسے بھی دن آئیں گے


آنکھ میں جو غم کے بادل ہیں ان کو کم قیمت نہ کہو

یہ بادل ہیں ہجر نبی کے یہ موتی برسائیں گے


محضر ان کا ہر متوالا کرتا ہے مرنے کی تمنا

جب سے سنا ہے کنج لحد میں وہ جلوہ دکھلائیں گے
 ——

صبا نے آکر دیا یہ مژدہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں

صبا نے آکر دیا یہ مژدہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں

سلام رخصت تجھے تمنا حضور طیبہ بلا رہے ہیں


نہ آ مرے پاس فکر دنیا حضور طیبہ بلا رہے ہیں

نہ روکے کوئی بھی میرا رستہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں


جبیں کو اپنی قدم بنانا نظر نظر کو ادب سکھانا

کہ دیکھنا ہے جمال خضری حضور طیبہ بلا رہے ہیں


بڑھایا آقا نے تیرا رتبہ قبول ہوگا ہر ایک سجدہ

چمک اٹھا ہے ترا ستارہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں


نگاہ سردار انبیاء میں بس اک یہی قیمتی ہے تحفہ

سنبھال کر رکھ دل شکستہ حضور طیبہ بلا رہے ہیں


عجیب تر عشق کا چلن ہے کہ چال میں والہانہ پن ہے

بلال نے خواب میں جو دیکھا حضور طیبہ بلا رہے ہیں


میں عاصی اور رحمتوں کا زینہ کہاں یہ محضر کہاں مدینہ

دعا ہے ماں کی کرم خدا کا حضور طیبہ بلا رہے ہیں
 ——

جو بھی مرے حضور کے در کے قریب ہیں

 جو بھی مرے حضور کے در کے قریب ہیں

یہ سوچئے وہ کتنے بڑے خوش نصیب ہیں


آنکھوں سے اپنی موتی لٹاتے ہیں عشق کے

کہنے کو ان کے چاہنے والے غریب ہیں


خنجر گلے پہ پھر بھی ہے سجدے کی آرزو

آقائے کائنات کے پیارے عجیب ہیں


کوئی مسیح ، کوئی کلیم اور کوئی خلیل

لیکن مرے حضور خدا کے حبیب ہیں


میں تم میں چھوڑ جاتا ہوں قرآں و اپنی آل

وہ کہتے ہیں جو دین کے پہلے خطیب ہیں


لائیں وہ کیا نگاہ میں جنت کی راحتیں

طیبہ کی نعمتیں جنہیں محضر نصیب ہیں
 ——

بھروسہ پل کا نہیں یہ گھڑی ملے نہ ملے

 بھروسہ پل کا نہیں یہ گھڑی ملے نہ ملے

چلو مدینے یہ موقع کبھی ملے نہ ملے


تو جذب شوق کو اپنا بنا رفیق سفر

سفر طویل ہے ساتھی کوئی ملے نہ ملے


سر نیاز ہر اک گام پر لٹا سجدے

تجھے مدینے کی پھر یہ گلی ملے نہ ملے


در نبی پہ حضوری کے واسطے مجھ کو

جنون عشق ہے کافی کوئی ملے نہ ملے


حضور جس میں ہوں بالیں پر جلوہ گر مالک

ملے وہ موت مجھے زندگی ملے نہ ملے


اسے تو صحن حرم میں سلام کرتا چل

دیار ہوش میں دیوانگی ملے نہ ملے


نہال کیوں نہ ہو دید جمال خضری سے

کہ دل کو پھر کبھی ایسی خوشی ملے نہ ملے


سنا دے جھوم کے اشعار نعت اے محضر

کہ پھر فضائے دیار نبی ملے نہ ملے
 ——

کرم ہے یہ زلف مصطفیٰ کا کہ چاند نے پائی چاندنی ہے

 کرم ہے یہ زلف مصطفیٰ کا کہ چاند نے پائی چاندنی ہے

یہ زلف والیل کا ہے صدقہ کہ بن گئی رات سُرمئی ہے


ہے ذرہ ذرہ ترا نگینہ عجب ہے تو گلشن مدینہ

ہر اک کلی مسکرا رہی ہے ہر ایک گل پر شگفتگی ہے


فراق طیبہ کی بیقراری گزاری رو روکے رات ساری

ہمارے اشکوں کا ہے تصرف کہ بن گئی صبح شب نمی ہے


مبارک اسکو خدا کی رحمت نثار اس پر جہاں کی عظمت

بڑا مقدر کا وہ دھنی ہے نبی کی چوکھٹ جسے ملی ہے


ہر ایک برگ و شجر ہے صدقے ہر ایک باغ و ثمر فدا

ہے نخیل خضری کی پتیوں پر نثار جنت کی ہر کلی ہے

اے سر زمین نبیّ اطہر ہے ریزہ ریزہ ترا منور

گزر گئے تم جہاں جہاں سے وہاں پہ خوشبو بکھر گئی ہے


عرب کا وہ دور جاہلا نہ وہ باتوں باتوں میں خوں بہانا

تمہاری سیرت کا معجزہ ہے کہ چھا گئی امن و آشتی ہے

 ——

گیت یارو محمد کے گایا کرو

 گیت یارو محمد کے گایا کرو

اور عقیدت کے موتی لٹایا کرو


جب ہواوں مدینے میں جایا کرو

نکہت مصطفی لے کے آیا کرو


جب کسی کی زباں پہ ہونام نبی

تم درودوں کی ڈالی سجایا کرو


عظمت مصطفی دل میں ہو جاگزیں

اپنے بچوں کو نعتیں سنایا کرو


قافلے والے جب سوئے طیبہ چلیں

راہ میں ان کی پلکیں بچھایا کرو


مصطفی تو سراپا ہیں ابر کرم

عاصیو! رحمتوں میں نہایا کرو


آرزو کا دیا جب بھی بجھنے لگے

لو حبیب خدا سے لگایا کرو


سنت مصطفی تو ہے محضر یہی

دشمنوں کو گلے سے لگایا کرو
 ——

Top Categories