madaarimedia

جان رسول فخر صحابہ حسین ہیں

 جان رسول فخر صحابہ حسین ہیں

لیکن نہ شمر سمجھا کہ کیا کیا حسین ہیں


وہ خود تو بوند بوند کو ترسا کئے مگر

تشنہ لبوں کے واسطے دریا حسین ہیں


اسلام کی حیات ہیں اور دیں کے ناخدا

لاریب رشک نوح مسیحا حسین


یوں تو ہر اک شہید کا ہے مرتبہ بلند

لیکن سبھی شہیدوں میں یکتا حسین ہیں


دین رسول ہم کو ملا ہے رسول سے

لیکن بنائت حرمت کعبہ حسین ہیں


اللہ رے خون فاطمہ زہرا کا احترام

عباس نے یہی کہا آقا حسین ہیں


محضر یہ فخر ہے کہ غلام مدار ہوں

اجداد میں مرے مرے آقا حسین ہیں
  ——

ہاتھ سے شبیر کے جام عطا پانے کے بعد

 ہاتھ سے شبیر کے جام عطا پانے کے بعد

پیاس حر کی بجھ گئی بس ایک پیمانے کے بعد


کس قدر دشوار ہے جہد عمل کا راستہ

فتح ملتی ہے مگر نیزے پہ چڑھ جانے کے بعد


راستہ پائے گا جنت کا ہر اک مؤمن مگر

حضرت شبیر کی الفت میں کھو جانے کے بعد


کھل گئے تپتی زمیں میں کیسے کیسے لالہ زار

کربلا میں حضرت شبیر کے آنے کے بعد


یہ غم شبیر کی تاثیر تو دیکھے کوئی

مطمئن ہوتی ہیں آنکھیں اشک برسانے کے بعد


مشک بھر کر جو اٹھا لے ایسے نازک وقت میں

اب کوئی شانہ نہیں عباس کے شانے کے بعد


درس ملتا ہے یہ ہم کو اصغر معصوم سے

مسکرانا چاہئے تیر ستم کھانے کے بعد


یہ سمجھ کر حضرت قاسم نے دے دی زندگی

شمع حق پر جان دے گا کون پروانے کے بعد


جاسکے خیمے کے باہر پھر نہ انصار حسین

نورِ ایماں پھیلتا ہے شمع بجھ جانے کے بعد


گھر لٹا کر اپنا ثابت کر دیا شبیر نے

زندگی ملتی ہے محضر حق پہ مٹ جانے کے بعد
  ——

جب لٹا ہوا آیا قافلہ مدینے میں

 جب لٹا ہوا آیا قافلہ مدینے میں

ہوگئی بپا ہر سو کربلا مدینے میں


پوچھتے ہو کیا لوگوں حال حضرت شبیر

جسم کربلا میں تھا قلب تھا مدینے میں


سینۂ پدر کی ہے جستجو سکینہ کو

کیسے مطمئن رہتیں فاطمہ مدینے میں


فاطمہ کا گھر دیکھو کربلا میں لٹتا تھا

کیوں نہ مضطرب ہوتے مصطفی مدینے میں


سوچیۓ کہ صغری پر کیا گزر گئی ہوگی

چھوڑ جب چلا ان کو قافلہ مدینے میں


بیٹیاں وہ جاتی ہیں سو شام ننگے سر

جو کبھی نہ نکلی تھیں بےردا مدینے می


کربلا میں اے محضر جس گلے پہ خنجر تھا

چوما تھا محمد نے وہ گلا مدینے میں
  ——

مجبور ہے لاچار ہے بیمار ہے صغری

 مجبور ہے لاچار ہے بیمار ہے صغری

آلام و مصائب میں گرفتار ہے صغری


اس آس میں اب آتے ہی ہوں گے مرے بابا

بے چینی سے تکتی درو دیوار ہے صغری


بیمار ہے تکلیف سفر سہ نہیں سکتی

ہم راہ ہم اگر چلنے کو تیار ہے صغری


شہ نے کہا ہونا نہ پریشاں میری بیٹی

کوئی نہ ہو اللہ نگہدار ہے صغراء


ہم دور اگر ہیں تو پریشان نہ ہونا

نزدیک ترے بابا کا دربار ہے صغری


آنکھوں میں ہے اب تک تری مظلومی کا نقشہ

لرزیدہ مرے دل کا ہر اک تار ہے صغری


ہر فرد پہ حسرت کی نظر ڈال رہی ہے

دل کہتا ہے یہ آخری دیدار ہے صغری


محظر کا نہیں کوئی بھی محشر میں سہارا

بس تیری عنایت کا طلب گار ہے صغری
  ——

اب نصرت شہ کو جھولے میں اک ننھا مجاہد تڑپا ہے

 اب نصرت شہ کو جھولے میں اک ننھا مجاہد تڑپا ہے

کیا جانئے کیوں دکھیا ماں کا سینے میں کلیجہ دھڑکا ہے


پچھم میں شفق کی لالی ہے یا آگ لگی ہے خیموں میں

ہے شام غریباں کا منظر یا شب کا اندھیرا پھیلا ہے


اے سلسلۂ باطل مٹ جا زنجیر ہیں پائے عابد نے

اے چادر شب پردہ کرلے بے چادر بنت زہرہ ہے


رحمت ہے لئے انعام بقا یا عرش سے ٹوٹا ہے تارا

ہے نور کا روشن مینارہ ابن علی کا لاشہ ہے


نیزے کی بلندی پر سر ہے تکبیر کا نعرہ لب پر ہے

اعلان یزیدی ہے جھوٹا قرآن کا دعوی سچا ہے


اک آخری سجدہ کرنے کو شبیر چلے ہیں مقتل میں

کعبے کا تصور ہے دل میں آنکھوں میں نبی کا روضہ ہے


شبیر نے نصرت کو دی صدا لبیک لب حر سے نکلا

اک آن میں جنت ملتی ہے خالق کا کرم جب ہوتا ہے


شبیر کے بچوں کے محضر جو خشک گلے تر کرنہ سکا

احساس ندامت تو دیکھو پانی پانی خود دریا ہے
  ——

ہر ایک روح میں ہے بس گئی حسین کی یاد

 ہر ایک روح میں ہے بس گئی حسین کی یاد

ہے مومنوں کے لئے زندگی حسین کی یاد


یہ منتیں یہ مرادیں یہ تعزیے یہ علم

سمجھ میں آیا ہے باقی ابھی حسین کی یاد


ملی مصائب دنیا سے زندگی کو نجات

غم والم میں اگر آگئی حسین کی یاد


تیرا ہی ذکر ہے گھر گھر ترا ہی چرچا ہے

یزید مٹ گیا ہے آج بھی حسین کی یاد


حسین منی کہا ہے رسول اکرم نے

نبی کو یاد کیا جس نے کی حسین کی یاد


میں کیا کروں مرا وجدان مجھ سے کہتا ہے

تری نماز تری بندگی حسین کی یاد


نہ مجھکو چھیڑ تو فکر جہاں نہ دے آواز

ذرا ٹھہر کہ مجھے آگئی حسین کی یاد


نہ جانے کتنی ہیں دنیا نے کروٹیں بدلیں

ہر ایک دور میں ہوتی رہی حسین کی یاد


فضول نار جہنم کی فکر ہے تجھ کو

بچائے گی تجھے محضر علی حسین کی یاد
  ——

لٹ گیا باغ علی مرتضی پردیس میں

 لٹ گیا باغ علی مرتضی پردیس میں

چھن گئی زینب کے سر سے بھی ردا پردیس میں


اس لئے ہے پانی پانی شرم سے نہر فرات

پیاس سے بیتاب ہے آل عبا پردیس میں


قافلہ سالار جس کا مالک کونین ہے

بے کس و مجبور ہے وہ قافلہ پردیس میں


کیا ہے مفہوم عبادت یہ سمجھ میں آگیا

زیر خنجر شہ نے جب سجدہ کیا پردیس میں


دیکھتی ہی رہ گئی صغری غبار کارواں

دیس سے جس دم چلا ہے قافلہ پردیس میں


ان گنت تھی کربلا میں کوفی و شامی سپاه

اہل بیت پاک کا کوئی نہ تھا پردیس میں


امت احمد پہ یہ احسان ہے شبیر کا

دیں بچایا اپنا کٹوا کر گلا پردیس میں


فرض کا احساس بھائی کی وصیت کا خیال

اور تنہا زینب حرما زده پردیس میں


آگیا جس دم نظر محضر محرم کا ہلال

پھر کسی لمحہ نہ میرا دل لگا پردیس میں
  ——

یزید کرتا ہے دیں کا سودا چلو مدینے سے کربلا میں

 یزید کرتا ہے دیں کا سودا چلو مدینے سے کربلا میں

حسین کے دل میں ہے یہ جذبہ چلو مدینے سے کربلا میں


نہیں ہے کچھ جس کو پاس ایماں مٹانا جو چاہتا ہے قرآں

ہے ایسے ہاتھوں میں دیں کا جھنڈا چلو مدینے سے کربلا میں


حسین کہتے تھے راہِ حق میں نثار ہو گھر تو غم نہیں ہے

کیا تھا نانا سے ہم نے وعدہ چلو مدینے سے کربلا میں


خبر جو تھے جبرئیل لائے وہ راز بن کر حجاب میں ہے

ہے بناّ راہ خدا کا فدیہ چلو مدینے سے کربلا میں


ملا ہے نانا سے اذن ہم کو اٹھا ئیں دل پر ہر ایک غم کو

خدا ہے حافظ ہمارا سب کا چلو مدینے سے کربلا میں


پیوں شہادت کا جام ایسے جھکا ہو سر سامنے خدا کے

یہی مشیت کا ہے تقاضہ چلو مدینے سے کربلا میں


فریضۂ حج کے بعد جس دم نبی کے روضہ پہ حاضری ہو

ملے یہ محضر کو کاش مژده چلو مدینے سے کربلا میں
  ——

دئے بھی چپ خیمے جل چکے ہیں نہیں ہے اب روشنی سکینہ

 دئے بھی چپ خیمے جل چکے ہیں نہیں ہے اب روشنی سکینہ

جو کھو گئے دشت کربلا میں انہیں کہاں ڈھونڈتی سکینہ


لرز اٹھا ہائے سارا عالم فرشتے لائے نہ تاب اس دم

کہ لاش بابا پہ آئے جس دم لپٹ کے رونے لگی سکینہ


غموں کے دن ہیں الم کی راتیں کرے بھی اب کس سے پیاری باتیں

جدا ہوا عمر بھر کو اصغر عجیب سی ہو گئی سکینہ


تھا بدلا بدلا سا گھر کا نقشہ رہا نہ کچھ لٹ چکی تھی دنیا

ہیں اور احباب یاد آئے مدینے جب آگئی سکینہ


یہ فکر عباس دل میں لے کر چلے ہیں خلد بریں کی جانب

نہ دشت کرب و بلا میں تیری بجھا سکا تشنگی سکینہ


تھکی تھکی سی تھی غم سے بوجھل فراق عباس سے تھی بیکل

نہ پایا بابا کا سر پہ سایہ تو دھوپ میں سوگئی سکینہ


نہیں مرے پاس کچھ بھی محضر کروں قدم پر جسے نچھاور

قبول ہو تو میں پیش کردوں حقیر سی زندگی سکینہ
  ——

کوفہ تری دھرتی پہ دو آئے ہوئے بچے

 کوفہ تری دھرتی پہ دو آئے ہوئے بچے

گلہائے رسالت ہیں مرجھائے ہوئے بچے


کچھ خواب میں فرمایا سرکار رسالت نے

لیٹے ہیں گلے باہم گھبرائے ہوئے بچے


مجبور ہیں بے کس ہیں جائیں تو کہاں جائیں

غربت میں تیمی سے گھبرائے ہوئے بچے


پاتے نہیں چھپ نے کی صحراء میں بھی جا کوئی

طوفان مظالم سے ٹکرائے ہوئے بچے


جس طرح سے چھاتی ہے بدلی مہ کامل پر

یوں گرد سے ہیں دونوں دھندلائے ہوئے بچے


کہتے ہیں کہ اے ظالم کر قتل مجھے پہلے

اس جینے سے ہیں شاید اکتائے ہوئے بچے


ظالم بھی لرز اٹھے جس وقت کہ پہنچے ہیں

دربار میں سر اپنا کٹوائے ہوئے بچے


گذریں تو شہادت کو صدیاں ہیں مگر اب بھی

احساس پہ دنیا کی ہیں چھائے ہوئے بچے
  ——

Top Categories