کہاں یہ ذرہ کہاں مہر دو جہاں کو سلام
زمیں کی پستیاں کرتی ہیں آسماں کو سلام
مہک نے انکی دو عالم عطر بیز کیا
بہاریں کرتی ہیں طیبہ کے گلستاں کو سلام
تیرے وجود سے قائم ہے دو جہاں کا وجود
زمانہ کیوں نہ کرے وجہ کن فکاں کو سلام
یہ مہر و ماه بصد احترام کرتے ہیں
ترے ہی پاؤں کی پر نور کہکشاں کو سلام
وہ جس نے بخشا ہے تشنہ لبوں کو آب حیات
ادب کیجئے اس بحر بے کراں کو سلام
خدا کے گھر کے منارے بھی کرتے ہیں شاید
سنہری جالی ہے جس کی اس آستان کو سلام
عرب کے رور جہالت میں میہاں کے لئے
بچھادی جس نے ردا ایسے میزباں کو سلام
غلام قوموں کو بخشی ہے جس نے آقائی
پڑھو درود کرو ایسے مہرباں کو سلام
بصد خلوص بعجز و نیاز بھیجا ہے
بھکاریوں نے شہنشاہ انس و جاں کوں سلام
کہاں دیار مدینہ کہاں تو اے محضر
جو ہجر طیبہ میں نکلی تھی اس فغاں کو سلام