چھو گئے باد سحر کیا ان کے گیسو ہاتھ میںبانٹتی پھرتی ہے گھر گھرلے کے خوشبو ہاتھ میں ہو نہ ہو لوگو کسی منصف کی یہ تصویر ہےآنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور ترازو ہاتھ میں آئے ہیں احباب میرے خانہ تاریک تکروشنی ...
آرزو ٹوٹ کے جب کوئی بکھر جاتی ہےایک امید ہے جو دل مرا بہلاتی ہے جس پہ تنہائی میں لکھتا ہوں کبھی اپنی غزلاس ورق پہ تری تصویر ابھر آتی ہے میرے تاریک مکاں میں بھلا کون آئیگامیری پرچھائیں دیوار پہ جم جاتی...
ہائے کیسی بہار آئی ہےہر کلی خون میں نہائی ہے آگ میں مجھ کو جھونکنے والوکیا یہ نمرود کی خدائی ہے دامنوں پر ہیں خون کے دھبےاور ہونٹوں پر پارسائی ہے آه مظلوم سے ڈرو لوگواس کی اللہ تک رسائی ہے میری سچ بول...
یوں ہی نہیں یہ ہونٹ ہمارے نیلے ہیںسچائی کے بول بڑے زہریلے ہیں پگ پگ پر یہ دل کا شیشہ ٹوٹے ہےجیون کے رستے کتنے پتھریلے ہیں ہم بھی ہنسے تھے یہ تو ہم کو یاد نہیںمدت سے آنکھوں کے پپوٹے گیلے ہیں دیکھو چیخی...
تیرے جلوے عام ہیں ہر شہ میں تیرا نور ہےلن ترانی ہے نہ موسیٰ ہے نہ کوہ طور ہے خستہ حالی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مزدور ہےزندگی درد مشقت اور دکھوں سے چور ہے ہاتھ پیچھے ہیں بندھے کانٹے چھے ہیں پاؤں میںراہ بھی...
جب سفینہ ہم بھنور میں لائے ہیںموج طوفاں کو پسینے آئے ہیں ہیں ہمارے پاؤں کے چھالے گواہہم بیاباں سے بہاریں لائے ہیں خون دل سے سرخ تھیں آنکھیں مگرلوگ سمجھے میکدے سے آئے ہیں غم کی دھوپیں ہیں مری تقدیر میں...
موقوف تھی وہ جسکی بہاروں پہ زندگیاسکو گزارنا پڑی خاروں پہ زندگی سوتی کہیں ہے برف کی آرام گاہ میںبیٹھی ہوئی کہیں ہے شراروں پہ زندگی سینے سے ہے لگائے اسے مفلسی مگرکرتی ہے رقص زر کے اشاروں پر زندگی عشرت ...
نہ ہٹاؤ مجھے بنیاد کا پتھر میں ہوںمجھ کو پہچانوں عمارت کا مقدر میں ہوں ایک ایوان حسیں اب بھی مرے ذہن میں ہےاور دنیا یہ سمجھتی ہے بے گھر میں ہوں اپنی منزل سے بغاوت نہیں اچھی ہوتیغم کے دریاؤ! نہ بھولو ک...
مزاحیہ نظم دریوزہ گر آزادی ہیںاور حامل صد بربادی ہیں ہم لوگ اہنسا وادی ہیں ہے جور و جفا اپنا پیشہہنگامہ پسندی ہے شیوہلیکن ہے زبانی یہ دعویہم نہرو ہیں ہم گاندھی ہم لوگ اہنسا وادی ہیں اک شوخ حسینہ زیر ب...
ماہ کامل پر ہو جیسے کوئی اختر رکھ دیااس حسیں چہرے پہ لب ہیں یا گل تر رکھ دیا جیتی بازی ہار بیٹھا ہوں یہ کیا ہے ماجراہے بساط زیست کو کس نے الٹ کر رکھ دیا کلمۂ حق پھر بھی تو جاری تھا جب اغیار نےریت پر ج...
