ٹھہریں گے ضرور ایک دن سیلاب کے دھارے بھی
ابھریں گے کبھی غم سے تقدیر کے مارے بھی
مایوس فضاؤں نے دل جب سے بجھایا ہے
کجلا گئے آنسو بھی پتھرا گئے تارے بھی
امید کی دنیا کو ہے عشق وہاں کَھلتا
دیتے ہیں جہاں دھوکہ مضبوط سہارے بھی
افسردہ امیدوں سے مایوس نہ ہو اے دل
اکثر ہیں دہک اٹھتے کجلائے شرارے بھی
مئے بار نگاہوں کے اعجاز دکھا ساقی
محتاج توجہ ہیں کچھ درد کے مارے بھی
محتاج بیاں ہمدم قصہ نہیں بے کس کا
کرتے ہیں بیاں سب کچھ خاموش اشارے بھی
یہ صحن چمن کیا ہے جو دل میں بہاریں ہوں
جنت ہیں نگاہوں میں ویران نظارے بھی
مایوس نیاز اتنا تو کیوں ہے غم دل سے
منزل پہ پہنچتے ہیں تقدیر سے ہارے بھی



