کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان شرع عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
(۱)
محمد رفیق صاحب کے دو لڑکے اور دولڑکی جس میں سے ایک شادی شدہ لڑکا (محمد صابرمرحوم) کا انتقال تقریباً ۱۹۹۲عیسوی میں اپنے والد کی موجوگی میں ہوا ۔اس کے بعد ۲۰۱۵میں میرے والد محمد رفیق صاحب انتقال کرگئے۔اب ہم لوگ کل تین بھائی بہن بچے ہیں یعنی (۱)محمد جابر،(۲)کنیزہ خاتون،(۳)طیرن خاتون۔اب ہمیں معلوم کرنا یہ ہے کہ محمد رفیق مرحوم کے حصے سے ہم سبھوں کاکتناکتنا حصہ بنے گا؟)۲(بعدہ محمد رفیق صاحب مرحوم کی بیوی کا انتقال تقریباً ۲۰۱۱ میں ہوا یعنی میرے والد محمد رفیق صاحب کے بعد ہوا۔طالب ترکہ مذکور ہی لوگ ہیں تو ان کی وراثت کے کون کون اور کتنے کتنے حصے کا حقدار ہیں۔حضور مفتی صاحب قبلہ وضاحت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت کریں،عین نوازش ہوگی۔
المستفتیہ:کنیزہ خاتون زوجہ ماسٹر محمد صفی احمد مقام موہنی مہواگاچھی ضلع سیتامڑھی بہار
موبائیل نمبر:9934818128؍9570165746
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب : اللھم ہدایۃ الحق و الصواب
(ج:۱)
بعدتقدیم ماحقہ التقدم،انحصارورثاء فی المذکورین وعدم موانع ارث:محمدرفیق صاحب کی کل جائداد(خواہ وہ مکان ہویاروپے پیسے) چار(۴) حصوں میں تقسیم ہو کر دو(۲) حصے محمدجابرکو، اور ایک ایک (۱) حصہ کرکے دونوںلڑکی(کنیزہ خاتون ؍طیرن خاتون )کوملے گا،اور محمدصابر جائداد سے محروم رہے گا۔بیٹا اوربیٹی دونوں کا حصہ نص قطعی یعنی قرآن کریم سے ثابت ہے البتہ بیٹی کا حصہ بیٹا کے حصہ سے آدھاہے یعنی ایک بیٹی کو جتنا ملے گا اس کادو گنا ایک بیٹا کو ملے گاجیساکہ قرآن حکیم میں ہے :للذکر مثل حظ الانثیین‘‘( ایک مذکر کا حصہ دو مؤنث کے برابر ہے) استحقاق وراثت کے باوجود بلاوجہ موانع ارث بیٹی کو حصہ نہ دینا قرآن کریم کی صریح خلاف ورزی ہے ۔
اگر بلاوجہ شرعی بیٹی کو باپ کے حصہ سے محروم کریں گے تو حصہ نہ دینے والے بروز حشر سخت سے سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ مسئلہ کی صورت درج ذیل ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم
(۱)محمدرفیق صاحب میت
محمدصابر محمد جابر کنیزہ خاتون طیرن خاتون
محروم ۲ ۱ ۱
کتبہ
سید مشرف عقیل
ہاشمی دارلافتا،موہنی، مہواگاچھی ،تھانہ نانپور،ضلع سیتامڑھی بہار
۴؍ربیع النور شریف ۱۴۳۹ھ؍مطابق۲۴؍نومبر۲۰۱۷ءبروز جمعہ