السلام علیکم
میرا سوال ہے
زید اپنے گھر سے غصہ کی حالت میں باہر نکلا ، دو لوگ باہر بیٹھے ہوئے تھے زید ان سے بولا میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ان لوگوں نے زید سے دو بار پوچھا کتنی بار دی ہے زید نے کہا ایک بار دی ہے اس پر کون سا حکم لگے گا ۔ جس میں ایک گواہ اہل سنت سے ہے اور دوسرا وہابی ہے زید کی بیوی کو اس بارے میں معلوم نہیں ہے تمام مفتیان کرام سے گزاش سے ہے اس سوال کا جواب عنایت فرمائیں ۔
میرا نام محمد تسلیم علی مداری
ضلع بریلی گاؤں دولی جواہر لال
وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
بسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم
نَحمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیم، اَمّا بَعْد۔
الجواب، بعون الملک الوہّاب، اللّٰہمَّ ہِدایۃَ الحقِّ وَالصَّواب:
زید نے غصّہ کی حالت میں گھر سے نکل کر دو آدمیوں کے سامنے یہ کہا: “میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی”
اور دونوں کے پوچھنے پر اس نے تصریح کی کہ “ایک طلاق دی ہے”۔
لہٰذا شرعِ مطہر کے مطابق زید کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہو چکی ہے۔ طلاق کے صحیح ہونے کے لیے نہ گواہوں کی شرط ہے اور نہ بیوی کا سن لینا ضروری۔ چاہے گواہ اہلِ سنت ہو یا وہابی ، اس سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ طلاق شوہر کے قول سے واقع ہو جاتی ہے، سامعین کی نوعیت اثر انداز نہیں ہوتی۔
بیوی تک خبر پہنچے یا نہ پہنچے، شریعت کی رو سے طلاق صادر ہوتے ہی واقع ہو جاتی ہے۔ اگر زید نے الفاظِ طلاق اتنی آواز میں کہے کہ خود اس کے کان سن سکتے تھے ۔ خواہ شور یا کم عارضی سماعت کی وجہ سے نہ سن سکا ہو ۔ مگر آواز اس درجہ بلند تھی کہ معمول کی حالت میں وہ سن لیتا ۔ تو ایسی صورت میں بھی طلاق قطعی طور پر واقع ہو گئی۔ دوسروں کا سننا یا نہ سننا شرعاً غیر متعلق ہے ۔
اس کے متعلق محیط برہانی میں ہے
”إِنَّ الزَّوْجَ يَنْفَرِدُ بِإِيقَاعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ، وَلَا يَتَوَقَّفُ ذَلِكَ عَلَى عِلْمِ المَرْأَةِ. “
یعنی شوہر تین طلاقیں واقع کرنے میں منفرد ہے اور طلاق کا واقع ہونا عورت کے معلوم ہونے پر موقوف نہیں۔
(المحیط البرھانی ، جلد 5 ، صفحہ 366 ، مطبوعہ: کراچی)
طلاقِ رجعی وہ ہے جو صریح الفاظ سے ایک یا دو دی جائے۔
زید نے ایک طلاق دی ہے ، لہٰذا یہ طلاقِ رجعی ہے ۔
حکمِ طلاقِ رجعی یہ ہے کہ عدّت کے پورے عرصے تک نکاح باقی رہتا ہے۔ شوہر عدّت کے اندر لفظاً یا عملاً (جماع ، بوسہ مع الشّہوۃ) رجوع کر سکتا ہے۔ عدّت ختم ہونے تک اگر رجوع نہ کیا تو نکاح ختم ہو جائے گا، مگر عورت کی رضامندی سے نیا نکاح ہوسکتا ہے نئے نکاح میں حلالہ کی کوئی ضرورت نہیں۔
قرآنِ کریم کا حکم
اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِۚ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ (البقرہ: 229)
ترجمہ
طلاق (رجعی) دو بار تک ہے، پھر یا تو اچھے طریقہ سے روک لینا ہے یا بھلے طریقہ سے رخصت کر دینا۔
رجعت کا مستحب طریقہ
زبان سے کہے: “میں نے رجوع کیا” اور دو عادل گواہ بنا لے۔ بغیر لفظ کے جماع یا شہوت سے بوسہ و لمس بھی رجعت شمار ہو جاتا ہے۔
الحاصل
زید کے الفاظ سے ایک طلاقِ رجعی فوراً واقع ہو گئی ۔
بیوی کو علم نہ ہونے سے طلاق کے واقع ہونے میں کوئی فرق نہیں ۔
گواہوں کا اہلِ سنت یا وہابی ہونا بھی طلاق کے حکم کو تبدیل نہیں کرتا۔
عدت کے اندر زید چاہے تو رجوع کر سکتا ہے ۔
عدت ختم ہوگئی ہو تو نیا نکاح ضروری ہے ۔
واللّٰہ تعالیٰ اَعلمُ بالصَّواب
حررہ العبد العاصی
محمد عمران کاظم مصباحی المداری مرادآبادی
خادم :- دار الافتاء الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند
تاریخ 04 / جمادی الثانی 1447 ھجری , بروز بدھ ، مطابق 26 / نومبر 2025 عیسوی ۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
افقہ الفقہاء فاتحِ نیپال حضرت علامہ مولانا مفتی سید نثار حسین جعفری المداری نادر مصباحی مکن پور شریف کان پور نگر یو پی الہند
مفتی دار الافتاء آستانۂ عالیہ مداریہ دار النور مکن پور شریف ۔






