کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسلۂ ذیل میں
نماز ظہر اور عصر میں قرأت آہستہ آہستہ کیوں پڑھی جاتی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا!بینو او توجروا
المستفتی :مولانا شرافت علی شاہ مداری، بریلی شریف یو پی
{HDI.R.1/796}ااَلْجَوَابُـــــــــــــ: بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ:
جب مسلمانوں پر نماز فرض ہوئی تو اصحاب ِرسول رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نےنبی کریم ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ہم نماز کیسے پڑھیں؟ تونبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :’’صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي‘‘ ترجمہ: تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔[بخاری،رقم :۶۰۰۸] نمازِ ظہر و عصر میں پست(آہستہ) آواز میں تلاوت کرنے کی ہمارے لیے یہی وجہ کافی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ایسا کیا ہے۔آپ ﷺ نے نماز کا جوطریقہ اور جو انداز اپنے صحابہ کو سکھایاہے وہی طریقہ صحابہ نے تابعین کو سکھایا۔ یوں کئی طبقات سے ہوتا ہوا نماز کا وہی طریقہ آج ہم تک پہنچا۔سری اور جہری نمازوں کی مصلحت ہماری سمجھ آئے یا نہ آئے،بس ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ نبی کریمﷺ کا طریقہ یہی ہے۔تاہم اہلِ علم نے کچھ ظاہری مصلحتیں بھی بیان کیں ہیںوہ یہ ہے کہ شروع میںحضور نبی کریم ﷺ تمام نمازوں میں جہراً قرأ ت فرماتے تھے تو مشرکین ایذاء وتکلیف پہونچاتے تھے اس وقت اللہ رب العزت نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا ‘‘[بنی اسرائیل،؍۱۱۰] اورنہ اپنی نماز (میں قرات) بہت بلند آواز سے کریںاور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان(معتدل) راستہ اختیار فرمائیںoآیتِ کریمہ میں ہمیں درمیانی راستہ اپنانے کا حکم دیا گیاکیونکہ شروع میں جب مسلمان نماز پڑھتے تو ساری نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت کرتے تھے اور کفار کو یہ پسند نہ تھا لہذا وہ مسلمانوں کے قریب آ کر شور وغل کرتے، سیٹیاں بجاتے اور مسلمانوں کو نماز ادا نہیں کرنے دیتے۔ اوراللہ ورسول کی شان میں نازیبا کلمات کہتے، گستاخی کرتے اور توہین کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ نہ تو اتنی اونچی آواز میں پڑھو کہ کفار سن کر بے ادبی وگستاخی کریں اور نہ اتنا آہستہ پڑھو کہ تم خود بھی نہ سن سکو۔ لہذا درمیانی آواز میں قرات کر لیا کرو۔دوسری بات یہ کہ فجر اور عشاء کے وقت کفار سوئے ہوتے تھے اور مغرب کے وقت کھانے پینے میں مشغول ہوتے تھے اس لئے ان تین اوقات میں حکم دیا کہ جہرا ًنماز ادا کی جائے کیونکہ کفار ان اوقات میں کھانے پینے اور سونے میں مشغول ہوتے ہیں مسلمانوں کو تنگ نہیں کر سکتے، لہذا جہرا نماز کا حکم دیا گیا۔ ظہر اور عصر کے وقت کفار دن بھر گھومتے رہتے تھے۔ اس لئے ان نمازوں میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا حکم دیاتاکہ کفارومشرکین مسلمانوں کو تنگ نہ کر سکیں اور قرات کی آواز سن کر سیٹیاں اور شور وغل نہ کر سکیں، اور جمعہ وعیدین میں باواز بلند پڑھنا اس وجہ سے تھا کہ ان کا قیام مدینہ جانے کے بعد ہوااور وہاں کفارِ مکہ کے ایذاء پہونچانے کا اندیشہ نہ تھا۔مدینہ جانے کے بعد ظہراور عصر میں سراً قرأت کرنے کی حکمت ومصلحت اگرچہ باقی نہ رہی،کیونکہ وہاں کفار کے ایذاء پہونچانے کا اندیشہ باقی نہ رہاتاہم یہ سنت اس لیے جاری رہی کہ حکم کے باقی رہنے کے لیے سبب کا باقی رہنا ضروری نہیں۔ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اس کی ایک وجہ یہ تحریر فرمائی ہے کہ:”دن میں چونکہ بازاروں اور گھروں میں شوروشَغَبْ کا احتمال تھا، ایسے وقت میں جہری قرأ ت میں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوتا، نہ پڑھنے میں مزہ آتاہے نہ سننے میں،اس لیے ظہر اور عصر میں آہستہ قرأ ت کرنے کا حکم ہوا، اور رات میں آوازیں تھم جاتی ہیں، ماحول پرسکون ہوجاتا ہے ایسے وقت میں طبیعت میں سرور ونشاط ہوتا ہے ، خوب پڑھنے اور سننے کو جی چاہتا ہے ۔اس لیے باقی تین نمازوں میں جہراً قرأ ت کا حکم ہوا، اسی طرح نمازِ جمعہ وعیدین وغیرہ چونکہ خاص مواقع میں پڑھی جاتی ہیں اور اس وقت کاروبار کی مشغولیت ختم ہوجاتی ہے یا کرادی جاتی ہے تو شوروشغب بھی کم ہوجاتا ہے اور ان نمازوں میں مجمع بھی بڑا ہوتا ہے ، ایسے مواقع روز نہیں آتے ،اس لیے پندوموعظت کے پہلو کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دن کی یہ نمازیں بھی جہراًادا کی جاتی ہیں۔[حجۃاللہ البالغہ مع رحمۃ اللہ الواسعۃ،۳؍۴۲۲] وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمﷺ
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ سید مشرف عقیل غفرلہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
ہاشمی دارلافتاوالقضا،موہنی شکرہولی ،تھانہ: نانپور،ضلع :سیتامڑھی ،بہار(الہند)
۰۷/شعبان المعظم ۱۴۴۱ ھ/مطابق۰۲/اپریل ۲۰۲۰ءبروزِجمعرات