آمنہ کی گود میں شاہِ مدینہ آگیا
کفر کے مغرور ماتھے پر پسینہ آگیا
دیکھ کر مختار کل کے پیٹ پر پتھر بندھے
ہم کو غربت میں بھی جینے کا قرینہ آ گیا
دفعتاً نکلا ہے منہ سے المدد یا مصطفیٰ
جب کبھی گرداب میں میرا سفینہ آگیا
اس کی قسمت بن گئی ہیں دو جہاں کی ذلتیں
جس کے دل میں آپ کی جانب سے کینہ آگیا
الاماں درد غم ہجر نبی کی برکتیں
کھینچ کے آنکھوں میں مری شہر مدینہ آ گیا
آئے تھے ” مصباح ” جس میں رحمت للعالمین
رحمتوں والا مبارک وہ مہینہ آگیا