اجالوں کا انوکھا اک سمندر ہم نے دیکھا ہے
جمال گنبد خضرا کا منظر ہم نے دیکھا ہے
رکی تھی جس جگہ جا کر سواری اپنے آقا کی
ابو ایوب انصاری کا وہ گھر ہم نے دیکھا ہے
جوار گنبد خضرا تو ہے ہی نور کا ساغر
مدینے کا ہر اک ذرہ منور ہم نے دیکھا ہے
اگر بوجہل جھٹلائے کہیں معراج کا قصہ
تو بے دیکھے کہیں صدیق اکبر ہم نے دیکھا ہے
صدا یہ آرہی ہے دوستوں طائف کی وادی سے
خدا شاہد ہے رحمت کا سمندر ہم نے دیکھا ہے
ہمیں بھا ئیگی کیا تاج شہنشاہی کی تابانی
جہاں والوں جمال فقر بوذر ہم نے دیکھا ہے
سمایا ہے خیالوں میں ہمارے اس قدر آقا
کہ بے دیکھے بھی لگتا ہے ترا در ہم نے دیکھا ہے
نہ پوچھو حال کیا تھا دل کی بیتابی کا اے ” مصباح “
دم رخصت ہوئے طیبہ جو مڑ کر ہم نے دیکھا ہے