ایثار اور وفا کا ہر ایک زاویہ ہے عابد کے آنسوؤں میں
اسلام کی بقا کا سورج چمک رہا ہے عابد کے آنسوؤں میں
صغری کے سامنے اب کس طرح جائے زینب
اور اپنی بیکسی کو کیسے چھپائے زینب
مظلومیت کا سارا قصہ لکھا ہوا ہے عابد کے آنسوؤں میں
قسمت کہاں پہ لائی ہے باپ اور نہ بھائی
اپنوں سے وہ جدائی زینب کی بے ردائی
ایک ایک کر بلا کا منظر بسا ہوا ہے عابد کے آنسوؤں میں
کیسے نہ ان کے غم میں اپنے حواس کھوئے
بن کر شفق فلک بھی کیسے نہ خون روئے
نیزے پہ شہ کے سر کو وہ جھک کے دیکھتا ہے عابد کے آنسوؤں میں
ان میں بسی ہوئی ہے اکبر کی پیاری صورت
کیوں دیکھ کر نہ روئیں سب عاشق رسالت
یہ لگ رہا ہے جیسے تصویر مصطفیٰ ہے عابد کے آنسوؤں میں
شبیر کی نمایاں ان میں ہر اک ادا ہے
قاسم کی ہے شجاعت اکبر کا حوصلہ ہے
بے شیر کی ہے نصرت عباس کی وفا ہے عابد کے آنسوؤں میں
اہل قلم کے در پر کیوں اپنا سر جھکائیں
آخر مورخوں کے احسان کیوں اٹھائیں
ہم کو دکھائی دیتی تاریخ کر بلا ہے عابد کے آنسوؤں میں
“مصباح ” ان پہ اپنی ہر اک خوشی لٹاؤ
تم ان کو یاد کرکے تقدیر جگمگاؤ
امت کی مغفرت کا ساماں چھپا ہوا ہے عابد کے آنسوؤں میں