بتلا اے فلک کیا تو نے کبھی ایسا کوئی منظر دیکھا ہے
سر سجدۂ خالق میں ہو جھکا گردن پہ ہو خنجر دیکھا ہے
خود ڈوب کے باطل کی ظلمت دنیا سے مٹا ڈالی جس نے
کر بل تری دھرتی پر ہم نے وہ مہر منور دیکھا ہے
معصوم سکینہ کو ان کا سینے پہ سلانا یاد آیا
جس وقت کہ اپنے بابا کا نیزے پہ کٹا سر دیکھا ہے
مختار کو اور مجبوری کا غم ایثار و وفا کا یہ عالم
کربل کی زمیں پر دنیا نے اک پیاسا سمندر دیکھا ہے
یہ رتبہ شناسی دیکھو ذرا بھائی کو سدا آقا ہی کہا
عباس دلاور کے جیسا کیا کوئی برادر دیکھا ہے
سورج کا ہوا ہے چہر افق رویا ہے لہو پچھم میں شفق
ملتے ہوئے منھ پر جب شہ کو خون علی اصغر دیکھا ہے
اسلام کی خاطر جو اپنا گھر بار لٹا دے ہنس ہنس کر
شبیر کے جیسا بتلاؤ کیا کوئی دلاور دیکھا ہے
اے چشم فلک آ رکھ لیں تجھے سینے میں چھپا کر ہم تو نے
اسلام کی قسمت کی گودی میں حر کا مقدر دیکھا ہے
مصباح ” وہ ہے کیا خوش قسمت اس پر ہے فدا روحانیت
خوابوں ہی میں جس نے ایک جھلک شبیر کا پیکر دیکھا ہے