تری رفعتوں کی ہے انتہا نہ ہی عظمتوں کا شمار ہے
ترا رشتہ خون نبی سے ہے ترا درجہ قطب مدار ہے
نہیں چاہئے کوئی آسماں ہے بہت مجھے یہی سائباں
مرے سر پہ سایہ کیئے ہوئے ترے آستاں کا غبار ہے
ملا سبکو ہے ترا سلسلہ ترا فیض پاتے ہیں اولیاء
ہے چمن چمن تری نکہتیں تو وہ پنجتن کی بہار ہے
ہوں اگر نہ تیری نوازشیں تو اٹھیں ہزار قیامتیں
تیرے دم سے ہے میرے دم میں دم تیرے دم سے میرا وقار
ہے اسے نسبتوں کا اثر کہوں کہ عقیدتوں کا ثمر کہوں
لیا نام جب بھی مدار کا ملا میرے دل کو قرار ہے
ترے روضے پر یہ یہ حسیں کلس میں نثار اس پر نفس نفس
یہ زمیں ہے بوسہ گہ فلک جہاں تیرا نوری مزار ہے
ترے رخ پہ انکا جمال ہے تو میرے رسول کی آل ہے
ہاں شہید بن کے مرے گا وہ جسے تیری آل سے پیار