تولے تو چل گردش زمانہ نہ پوچھ طیبہ میں کیا ملے گا
جو محور جستجو ہے میرا وہ حجرہ عائشہ ملے گا
جہان میں دہشت لحد سے ہر ایک دل غمزدہ ملے گا
مگر میں خوش ہوں کہ دیکھنے کو وہاں رخ مصطفی ملے گا
خدارا اے رہرو مدینہ ہوائے امید دیتے جانا
کہیں تجھے میری حسرتوں کا تھکا تھکا قافلہ ملے گا
مدینہ جانا بقلب مضطر نظر اٹھانا بچشم پرنم
نظر کو کیف نظر ملے گا حیات کو ذائقہ ملے گا
ابوالبشر ہوش تو سنبھالو انہیں کی رحمت کا آسرالو
نگاه عرش خدا پہ ڈالو تمہیں محمد لکھا ملے گا
جمال صورت کا پوچھنا کیا خدا نے ان پر درود بھیجا
کمال سیرت کا دیکھنا کیا ہر اک عمل آئینہ ملے گا
ہے مال وزر ٹھوکروں میں لیکن شکم پہ پتھر بندھے ہوئے ہیں
تمہیں غریبی میں جینے والو حضور سے حوصلہ ملے گا
اسی جگہ کسب نور کرتے ملیں گے دو اور بدر کامل
جہاں مدینہ میں محو راحت وہ آفتاب حرا ملے گا
صدائے غیبی یہ سن رہا ہوں ادیب” کیا اور چاہتا ہے
جو مقصد زندگی ہے تیرا وہ عشق خیر الوری ملے گا