جب سے ملی ہے نسبت زندہ ولی مجھے
دیتی ہے ہر طرف سے صدا زندگی مجھے
مجھکو کسی مسیحا کی حاجت نہیں رہی
خاک در مدار شفا بن گئی مجھے
سر پر مرے تمہاری غلامی کا تاج ہے
جھک کر سلام کرتی ہے شاہنشہی مجھے
پھیلاؤں کیوں میں ہاتھ زمانے کے سامنے
آقا بہت ہے آپ کی دریا دلی مجھے
دیکھیں جو غور سے کبھی تیری نوازشیں
اپنی خطاؤں پر ہوئی شرمندگی مجھے
تاباں میری جبیں پہ ہے خاک در مدار
آنکھیں دکھا ئینگی بھلا کیا تیرگی مجھے
بے نور سا چراغ ہوں قطب المدار میں
دے دیجئے خدا کے لیے روشنی مجھے
کہتا ہے بھیگی آنکھوں سے مصباح اے مدار
رسوا کہیں نہ کر دے میری بیکسی مجھے