جنت کے راہی کیا تجھے یہ بھی شعور ہے
پروانے پر نبی کی گواہی ضرور ہے
چشم کرم سے اپنی اسے جوڑ دیجئے
سرکار میرا شیشۂ دل چور چور ہے
ہر ذرے میں ہیں جلوۂ وحدت کی بجلیاں
ہے یہ گماں دیارِ مدینہ میں طور ہے
کیا شان ہے جناب بلال رسول کی
ہے جسم تو سیاہ مگر دل میں نور ہے
بھیجے ہیں خود ہی قرن میں سرکار نے سفیر
وہ بھی قریب تر ہے بظاہر جو دور ہے
ہر امتی کو ناز ہے بس ایک بات پر
آقا ہمارا شافع یوم النشور ہے
مہجور مصطفیٰ کی یہ قسمت تو دیکھئے
طیبہ سے چل کے آئی ہوائے سرور ہے
آئے ہیں پا پیادہ جنید اور بایزید
اتنا ہے با ادب جسے جتنا شعور ہے
ہے آپ کے کرم پہ بھروسہ مجھے حضور
لیکن میں کیا کروں کہ یہ دل ناصبور ہے
صدیق اور عمر کا یہ اللہ رے شرف
دونوں نے پایا قرب دوام حضور ہے
عثمان اور علی کے مراتب ہیں یہ ادیب”
مقسوم میں لکھی ہوئی تملیک نور ہے