جنوں طیبہ کا سر میں پاؤں میں زنجیر مجبوری
میں سر سے پاؤں تک لگتا ہوں اک تصویر مجبوری
مری بے اختیاری کی خبر پہنچی مدینے تک
تعالی اللہ دیکھے تو کوئی تاثیر مجبوری
بلال و بوذر و سلمان کو سینے سے چمٹا کر
بڑھائی ہے میرے سرکار نے تو قیر مجبوری
ملی مجھ کو نہ اب تک احمد مختار کی چوکھٹ
لکھی ہو جیسے ماتھے پر مرے تحریر مجبوری
ہجوم یاس حسرت اور کسک ہجر مدینہ کی
ہیں پیوستہ ہمارے دل میں کتنے تیر مجبوری
رضا مقصود ہو تم کو جو مختارِ دو عالم کی
نہ کرنا بھول کر بھی تم کبھی تحقیر مجبوری
تو کل کی چٹانوں پر فقیری کی بنا رکھ کر
عجب انداز سے بوذر نے کی تعمیر مجبوری
جو اے ” مصباح ” دکھلایا نبی نے اختیار اپنا
عمر نے پھینک دی ہاتھوں سے ہے شمشیر مجبوری