جو بھی مرے حضور کے در کے قریب ہیں
یہ سوچئے وہ کتنے بڑے خوش نصیب ہیں
آنکھوں سے اپنی موتی لٹاتے ہیں عشق کے
کہنے کو ان کے چاہنے والے غریب ہیں
خنجر گلے پہ پھر بھی ہے سجدے کی آرزو
آقائے کائنات کے پیارے عجیب ہیں
کوئی مسیح ، کوئی کلیم اور کوئی خلیل
لیکن مرے حضور خدا کے حبیب ہیں
میں تم میں چھوڑ جاتا ہوں قرآں و اپنی آل
وہ کہتے ہیں جو دین کے پہلے خطیب ہیں
لائیں وہ کیا نگاہ میں جنت کی راحتیں
طیبہ کی نعمتیں جنہیں محضر نصیب ہیں