جو کوئی غوث تو کوئی مدار ہوتے ہیں
غلام سرور دیں باوقار ہوتے ہیں
یہ کہکشاں یہ فلک اور یہ مہر و ماه نجوم
ہزار جان سے تم پر نثار ہوتے ہیں
بغیر اذن لگاتے نہیں ہیں منہ سے شراب
تمہارے مست بڑے ہوشیار ہوتے ہیں
یقین رکھتے ہیں جو ان کی نا خدائی پر
وه لوگ بحر مصیبت سے پار ہوتے ہیں
ہے ان کی آنکھوں کا ہر قطرہ گوہر نایاب
فراق طیبہ میں جو اشک بار ہوتے ہیں
جو ظلم ڈھاتی کسی امتی پہ ہے دنیا
مرے حضور بہت بے قرار ہوتے ہیں
جو سر پہ رکھتے ہیں نعلین مصطفیٰ محضر
قسم خدا کی وہی تاجدار ہوتے ہیں