حقیقتوں سے سجا کوئی خواب دیکھیں گے
لحد میں روئے رسالت مآب دیکھیں گے
ترے پسینے کی یادیں انہیں رلائیں گی
جو تیرے چاہنے والے گلاب دیکھیں گے
ہماری فکر کی کھل جائیگی ہر اک کھڑکی
جو علمِ شہر نبی کا وہ باب دیکھیں گے
نبی دکھائیں گے اپنی شفاعتوں کے ہنر
ہم عاصیوں کو جو روز حساب دیکھیں گے
ورق ورق اسی امید میں بکھیرے ہیں
کبھی تو وہ میرے دل کی کتاب دیکھیں گے
نبی کا طوق غلامی پہن لیا ہم نے
اب آئے کوئی بھی افراسیاب دیکھیں گے
کرم کریں گے وہ ” مصباح ” یہ یقیں ہے مجھے
حضور جب مرا حال خراب دیکھیں گے