دشت میں تاریخ کے ایسا بھی اک لشکر ملا
جس کا ہر اک لشکری ایثار کا پیکر ملا
بازوئے عباس کٹ کر دین کی طاقت بنے
یہ لکھا سوکھی ہوئی مشکِ سکینہ پر ملا
کربلا کے بعد آئی پھر نہ ہونٹوں پر ہنسی
زندگی میں پھر نہ عابد کو سکوں پل بھر ملا
جس کے صدقے میں ملی ہے سر بلندی دین کو
نیزۂ ظلم و ستم پر ایک ایسا سر ملا
جس کے گھر کی کرتے دربانی تھے جبریل امیں
ہائے دشت کربلا میں آج وہ بے گھر ملا
پوچھتی پھرتی ہے اک اک سے سکینہ سوگوار
کوئی بتلاؤ کہیں تم کو مرا اصغر ملا
سر بلندی کیوں نہ پھر ” مصباح” کی قسمت بنے
آپ کے جیسا حسین اس کو ہے جب سرور ملا