رور ہا تھا خون کے آنسو علم جب علمبردار کے بازو کٹے
شرم سے سر آسمانوں کے تھے خم جب علمبردار کے بازو کٹے
نور کے موتی صدف میں رو پڑے فاتح خیبر نجف میں رو پڑے
عرش کا سر ہو گیا جیسے قلم جب علمبردار کے بازو کٹے
عظمت لخت دل خیبر شکن دیکھئے شان غلام پنجتن
مضطرب خضرا میں تھے شاہ امم جب علمبردار کے بازو کٹے
اپنی منزل پا گئیں مجبوریاں ہوگئی ہیں ختم ساری دوریاں
رو دیئے ارض و فلک ملکر بہم جب علمبردار کے بازو کٹے
دیکھ کر اس شیر کا غیض و غضب اس سے پہلے بھاگتے پھرتے تھے سب
جم گئے فوج یزیدی کے قدم جب علمبردار کے بازو کٹے
بے سہاروں کو سہارا دیگا کون ہائے اب راتوں کو پہرہ دیگا کون
رو کے یہ کہنے لگے اہلِ حرم جب علمبردار کے بازو کٹے
لگ گئی “مصباح” یہ کس کی نظر ہو گیا ویراں ابوطالب کا گھر
لٹ گیا سب ہاشمی جاہ و حشم جب علمبردار کے بازو کٹے