صبرو رضا کی آہنی دیوار کو سلام
نور نگاه احمد مختار کو سلام
کرتی ہیں آج ارم کی بہاریں بصد خلوص
صحرائے کربلا ترے ہر خار کو سلام
روشن ہوا عمل سے ترے فرق نور و نار
کرتی وفا ہے حر وفادار کو سلام
ہنس ہنس کے کر گئے ہیں فدا اپنے جان و تن
سبط رسول پاک کے انصار کو سلام
آیا نہ جسکے لب پہ تبسم تمام عمر
کرتے ہی رہئے عابد بیمار کو سلام
بولیں سکینہ بابا کے سینے پہ رکھ کے سر
تیری محبتوں کو ترے پیار کو سلام
کرتی تھی روکے شام غریباں قدم قدم
اہل حرم کے قافلہ سالار کو سلام
نازاں ہیں تجھ یہ مریم و حوا و فاطمه
اے زینب حزیں ترے کردار کو سلام
کرتی رہی ہے پیاسی سکینہ کی بے کلی
عباس تیرے جذبۂ ایثار کو سلام
میری نظر میں ہے تری مجبوریوں کا حال
نہر فرات تیری ہر اک دھار کو سلام
جس نے کیا تھا روئے امامت کو سرخرو
اصغر تمہارے خون کی اس دھار کو سلام
آنکھیں بھگا کے کہتا ہے مصباح خستہ جاں
بیمار کا ہو عابد بیمار کو سلام