حضور فقیہ اعظم صاحب قبلہ شیخ الاسلام , استاذ الاساتذہ , فقیہ عصر , محقق مداریت , مفتی الشاہ ابوالحماد محمد اسرافیل حیدری المداری دامت برکاتہم العالیہ کی بارگاہ میں سوال یہ ہے کہ
ہمارے یہاں جمعہ کے دن یا عیدین کی نمازوں میں لوگ نماز کے لیےمسجدوں میں لوگ خوب جمع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ مسجد کی چھت پر ایک فرد کے لیے بھی نماز پڑھنے کے لیے مصلی بچھانے کی گنجائش تک نہیں رہتی ایسی صورت میں بہت سے افراد مسجد سے ملی جلی چھتوں پر نماز پڑھ لیتے ہیں جس سے ان کے درمیان دیوار حائل ہو جاتی ہے چھتیں اونچی نیچی بھی ہوتی ہیں اور نماز ادا کر لی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا کہ ایک پورا میدان ہے لیکن بیچ میں کہیں پر ایک مقبرہ بنا ہوا ہے اس مقبرے کی چھت پر لوگ نماز پڑھ لیتے ہیں باقی چاروں طرف لوگ زمین پر پڑھتے ہیں , بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا کہ مسجد کی چھت خالی چھوڑ دی گئی اور دوسری چھتوں پر نماز ادا کی گئی جیسا کہ 2019 کرونا کال میں دیکھا گیا ۔ اور امسال تو ہمارے یہاں عیدگاہ میں گورنمنٹ کی گائیڈ لائن کے مطابق روڈ پر نماز نہیں پڑھی گئی اس بنا پر لوگوں نے عیدگاہ سے ملے ہوئے مکانوں کی چھتوں پر نماز ادا کی ان کی صفیں عیدگاہ کی صفوں سے بالکل الگ تھیں عیدگاہ کی صفیں زمین پر اور وہ دوسری تیسری منزل پر نماز ادا کر رہے تھے۔ اسی طرح روڈ پر نماز ادا کرنا یا میدان میں نماز ادا کرنا جہاں سے انسان , جانور گزرتے ہیں گندگی بھی کرتے ہیں پیشاب , پاخانہ , گوبر , تھوکنا وغیرہ دیگر دوسری غلاظتیں جس سے زمین ناپاک ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود صرف جھاڑو دے کر صفیں قائم کر دی جاتی ہیں نماز ادا کی جاتی ہے۔ کیا ان تمام صورتوں میں اس طرح انہیں جماعت کا ثواب ملے گا یا ان کی نماز ہو جائے گی?
العاصی : غلام فرید ابن جناب غلام نبی آزاد صاحب۔ ساکن : بیسلپور ضلع پیلی بھیت۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم – الجواب وباللهِ التوفيق
مندرجہ بالا تمام صورتوں میں نماز اور جماعت کے حکم کا انحصار شرائطِ اقتداء پر ہے، جو فقہائے احناف نے واضح کی ہیں۔
(1) مسجد یا میدان کے اندر صفوں کا متفرق ہونا یا چھت پر ہونا
اگر مسجد یا میدان کے اندر لوگ صفیں بنا کر اس طرح نماز پڑھ رہے ہیں کہ امام یا امام کے پیچھے کھڑے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں، یا ان کی آواز سن سکتے ہیں، یا صفیں عرفاً متصل شمار کی جائیں، تو ایسی صورت میں اقتداء درست ہے، اگرچہ درمیان میں معمولی فاصلہ یا دیوار ہو۔۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نماز کے لیے مسجد تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ رکوع کی حالت میں تھے، انہوں نے جلدی میں (کہ رکعت نہ نکل جائے) صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی اقتدا کرکے رکوع کرلیا، پھر اسی حالت میں صف میں شامل ہوگئے، رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ آپ کا شوق مزید بڑھائے، لیکن آئندہ ایسے نہ کرنا۔
“عن أبي بكرة رضي الله عنه: أنه انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو راکع، فركع قبل أن يصل إلى الصف، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ((زادك الله حرصًا، ولا تعُدْ)) (رواه البخاري في كتاب صفة الصلاة، باب إذا ركع دون الصف 1/ 271 (750)
معلوم ہواکہ مسجدِ شرعی کی حدود میں کہیں بھی اقتدا کی جائے تو نماز ہوجائے گی، تاہم یہ مکروہ ہوگا؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بھی، اور دیگر کئی احادیث میں صفوں کے درمیان فاصلہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ؛ لہٰذا عمومی احوال میں فاصلہ رکھ کر نمازادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔
الفتاوٰى الهنديّة میں ہے: “وَلَوْ صَلَّى فِي سَطْحِ الْمَسْجِدِ وَالْإِمَامُ فِي الْمَسْجِدِ، إِنْ كَانَ يَرَى الْإِمَامَ أَوْ مَنْ خَلْفَهُ، أَوْ يَسْمَعُ التَّكْبِيرَ، أَوْ كَانَتِ الصُّفُوفُ مُتَّصِلَةً، صَحَّتِ الصَّلَاةُ.”(الفتاوى الهنديّة، ج ١، ص ٨٥) اسی طرح اگر صفیں عرفاً متصل ہوں، یعنی درمیان میں اتنا فاصلہ نہ ہو جسے عرفاً جدائی کہا جائے، تو جماعت صحیح ہے۔
البحر الرائق میں ہے: “وَالشَّرْطُ أَنْ لَا يَكُونَ بَيْنَ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ مَسَافَةٌ تُفَصِّلُ فَصْلًا يُكْثِرُ عُرْفًا” (البحر الرائق، ج ٢، ص ٤٢)
(2) چھتوں پر یا اونچے نیچے طبقات میں صفیں قائم کرنا
اگر مسجد کی چھت یا آس پاس کی عمارتیں ایک دوسرے سے عرفاً متصل ہوں، اور صفوں میں ربط ہو، یا امام یا مقتدیوں کو دیکھا یا سنا جا سکے، تو ایسی صورت میں بھی جماعت کا ثواب حاصل ہو گا۔ لیکن اگر صفیں بالکل جدا ہوں، کوئی ربط نہ ہو، امام یا مقتدی نظر یا سنائی نہ دیں، تو ایسی صورت میں شرعاً جماعت کی اقتداء درست نہیں۔
الدر المختار مع ردّ المحتار میں ہے: “وَيَصِحُّ اقْتِدَاؤُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا حَائِلٌ يَمْنَعُ الْقُدْوَةَ، كَجِدَارٍ غَلِيظٍ لَا يُسْمَعُ مَعَهُ الصَّوْتُ، وَلَا يُرَى الْإِمَامُ، وَلَا مَنْ وَرَاءَهُ.”(الدر المختار مع ردّ المحتار، ج ١، ص ٥٧٤)۔
شرح الطحاوی میں ہے(وَمِنْهَا نَهْرٌ عَظِيمٌ لَا يُمْكِنُ الْعُبُورُ عَنْهُ إِلَّا بِالْعِلَاجِ كَالْقَنْطَرَةِ وَغَيْرِهَا، هَكَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ) فَإِنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْإِمَامِ نَهْرٌ كَبِيرٌ يَجْرِي فِيهِ السُّفُنُ وَالزَّوَارِقُ يَمْنَعُ الِاقْتِدَاءَ، وَإِنْ كَانَ صَغِيرًا لَا تَجْرِي فِيهِ لَا يَمْنَعُ الِاقْتِدَاءَ، هُوَ الْمُخْتَارُ، هَكَذَا فِي الْخُلَاصَةِ، وَهُوَ الصَّحِيحُ. … وَإِنْ كَانَ عَلَى النَّهْرِ جِسْرٌ، وَعَلَيْهِ صُفُوفٌ مُتَّصِلَةٌ، لَا يَمْنَعُ صِحَّةَ الِاقْتِدَاءِ لِمَنْ كَانَ خَلْفَ النَّهْرِ، وَلِالثَّلَاثَةِ حُكْمُ الصَّفِّ بِالْإِجْمَاعِ، وَلَيْسَ لِلْوَاحِدِ حُكْمُ الصَّفِّ بِالْإِجْمَاعِ، وَفِي الْمُثَنَّى اخْتِلَافٌ عَلَى مَا مَرَّ فِي الطَّرِيقِ.
وَإِنْ كَانَ بَيْنَهُمَا بُرْكَةٌ أَوْ حَوْضٌ، إِنْ كَانَ بِحَالٍ لَوْ وَقَعَتِ النَّجَاسَةُ فِي جَانِبٍ يَتَنَجَّسُ الْجَانِبُ الْآخَرُ، لَا يَمْنَعُ الِاقْتِدَاءَ، وَإِنْ كَانَ لَا يَتَنَجَّسُ، يَمْنَعُ الِاقْتِدَاءَ، هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ.(المحيط البرهاني، ج ١، ص ٨٧، الباب الخامس فِي بَيَانِ مَقَامِ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ، ط: سعید)
ترجمہ: (1) اور ان (رکاوٹوں) میں سے ایک بڑی نہر بھی ہے جس کے پار جانا صرف کسی ذریعہ (جیسے پل وغیرہ) کے ذریعے ممکن ہو، جیسا کہ شرح الطحاوی میں ذکر ہے۔ (2)اگر امام اور مقتدی کے درمیان ایک بڑی نہر ہو جس میں کشتیاں اور زوارق (چھوٹی کشتیوں) کا گزر ہوتا ہو، تو وہ اقتداء کو روک دیتی ہے (یعنی ایسی حالت میں جماعت صحیح نہیں)۔ اور اگر نہر چھوٹی ہو اور اس میں کشتیاں نہ چلتی ہوں، تو ایسی نہر اقتداء کو نہیں روکتی۔ یہی قول معتبر اور صحیح ہے، جیسا کہ خلاصہ میں ہے۔ (3) اگر نہر پر ایک پل (جسر) ہو اور اس پر متصل صفیں قائم ہوں، تو نہر کے اُس پار والوں کی اقتداء درست ہو گی۔ (4) اور یہ بات اجماعی ہے کہ تین افراد کی جماعت کا حکم صف کا ہوتا ہے، اور ایک فرد کے لیے صف کا حکم نہیں ہوتا، اور دو افراد (مقتدی) کے بارے میں اختلاف ہے، جیسا کہ راستہ (طریق) کے مسئلے میں گزرا۔(5) اگر امام و مقتدی کے درمیان کوئی حوض یا تالاب ہو، تو اگر اس کی کیفیت ایسی ہو کہ اگر ایک طرف نجاست گر جائے تو دوسری طرف بھی ناپاک ہو جائے، تو یہ اقتداء سے مانع نہیں۔
لیکن اگر ایسا نہ ہو، یعنی دوسری طرف نجاست اثر نہ کرے، تو ایسی صورت میں اقتداء درست نہ ہو گی۔
یہ عبارت المحيط البرهاني سے ہے۔
(3) غیر طاہر زمین پر نماز
جہاں جانور پیشاب پاخانہ کرتے ہوں، اگر صرف جھاڑو دے دی گئی ہو اور زمین پاک نہ کی گئی ہو، تو ایسی جگہ نماز جائز نہیں، کیونکہ نجاست اگر باقی ہو تو نماز باطل ہو جائے گی۔رد المحتار میں ہے: “لَوْ صَلَّى عَلَى نَجَاسَةٍ لَا يُعْفَى عَنْهَا، لَمْ تَصِحَّ صَلَاتُهُ.”(ردّ المحتار، ج ١، ص ٣٦٧)
(4)کرونا یا عذر کی حالت میں گھروں، چھتوں یا مختلف جگہوں پر جماعت
اگر کسی مجبوری یا سرکاری ہدایت کے تحت لوگ مسجد یا عیدگاہ میں جماعت کے لیے جمع نہ ہو سکیں اور چھتوں، گھروں یا دوسری جگہوں پر نماز پڑھیں، اور ان میں جماعت کی صفیں ربط سے بن جائیں یا امام کی آواز سنائی دے، تو ایسی حالت میں بھی جماعت کا ثواب ملے گا۔
خلاصہ یہ کہ
. اگر صفیں عرفاً متصل ہوں، یا امام کی آواز سنائی دے، یا مقتدیوں کو دیکھا جا سکے تو جماعت صحیح ہے۔ اگر درمیان میں بڑی دیوار ہو، صفیں ٹوٹ جائیں اور امام کی اقتداء ممکن نہ رہے تو جماعت نہیں ہو گی۔ ناپاک زمین پر نماز جائز نہیں جب تک زمین شرعاً پاک نہ کی جائے۔ بلند چھتوں پر نماز تب ہی درست ہے جب اقتداء کی شرائط پوری ہوں۔
والله أعلمُ بالصواب
کتبہ
أبو الحماد محمد إسرافيل حيدري المداري
عفا الله عنه وعن والديه ومشايخه والمسلمين